راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
شہبازحکومت نے عوام پر خودکش حملہ کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر ہوش اڑادینے والا اضافہ کردیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان کے دل میں عوام کا کتنا درد ہے۔ پیٹرول پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 200 روپے فی لیٹر سے بھی اوپر جاچکا ہے۔
پاکستان ادارۂ شماریات کے مطابق مئی کے دوران عمومی مہنگائی میں ہونے والے اعشاریہ 44فیصد اضافے کے بعد اس کی مجموعی شرح 13.37فیصد پر پہنچ گئی جو جنوری 2020کے بعد سب سے بلند سطح ہے۔
مہنگائی کے ہاتھوں یہ تڑپتی عوام جس کو دو وقت کی روٹی پورا کرنا مشکل ہے جس کے سامنے مہینے کا بجٹ منہ پھاڑے کھڑا ہوتا ہے جہاں اس مظلوم عوام کو کھانے پینے کی روزہ مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہی ستارہا تھا وہاں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے تو ان کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی ہے ۔
پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ اس حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے جس کے وزیراعظم ایک زمانے میں خادم اعلی کہلاتے تھے ۔ انہوں نے تواپنے دور حکومت کے ایک ہی مہینے میں ہی عوام کی ایسی خدمت کی ہے جس کی نظیر تاریخ میں کم از کم اس سے پہلے تو نہیں ملتی
خادم اعلی سے یہاں کچھ سنجیدہ سوال بنتے ہیں اور ان سے پوچھنا بنتا ہے کہ یہ قیمتوں میں اضافے کا بم صرف عوام پر کیوں مارا جاتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وسیع تر ملکی مفاد کے لیے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اور اگر یہ قیمتیں ملکی معیشت پر سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے بڑھائی گئی ہیں توپھر ان قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عوام اکیلے کیوں اٹھائے ؟
کیوں نہیں اس بار اعلیٰ ترین سرکاری عہدیداروں، ارکان پارلیمنٹ، وزیروں، مشیروں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس پر بھی ان قیمتوں کے اٖضافے کا بوجھ ڈالا جائے ۔
پاکستان کے لیے سب کو مل کر معاشی بدحالی کا سامنا کرنا چاہئے ، اعلیٰ سرکاری افسران ایم پی ایز ، ایم این ایز ، اور وزرا کو حاصل مراعات ختم کی جائیں ، فری پیٹرول دینا بند کیا جائے ، محض پسے ہوئے طبقے پر مالی بوجھ بڑھاتے جانا ظلم کے سوا کچھ نہیں ۔
عوام کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ، وزیروں، مشیروں، سیاستدانوں ،جرنیلوں اور بیوروکریٹس کو مراعات کی مد میں دیجانے والا مفت پٹرول، مفت بجلی اور مفت فون کی سہولت کو ختم کیا جانا چاہیے
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ملکی معیشت پر سب سے زیادہ بوجھ ان ہی عہدیداروں کو حاصل مفت سہولتوں کی وجہ سے ہے۔
دوسری جانب سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اگر بیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا ایک عام آدمی اپنی موٹر بائیک میں خود پٹرول خرید کر استعمال کر سکتا ہے تو یہ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے ارکان پارلیمنٹ، وزیر مشیر، سیاستدان اور بیوروکریٹس کو مفت پٹرول کی سہولت کیوں دی گئی ہے؟
سوال یہاں ختم نہیں ہوتا سوال تو یہ بھی بنتا ہے ہے کہ حکومت کے ایسے کئی سرکاری عہدیدار ہیں جنہیں نہ صرف مفت پٹرول، بجلی، گیس اور فون کی سہولیات میسر ہیں بلکہ انہیں ان کے بچوں اور اہل خانہ سمیت مفت فضائی سفر اور لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کی طبی سہولیات بھی حاصل ہیں۔تو کیا یہ مراعات ایک غریب ترین ملک کے اعلی عہدیداران کو ایسے وقت میں دیجانی چاہیے ؟
کیا پاکستان جو اس وقت قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے جس کی عوام سسک سسک کر زندگی گزاررہی ہے وہاں کی اشرافیہ کلاس اور اعلیٰ سرکاری عہدیداران کے پاس ایسی پرتعیش مراعات عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہی ہے ۔ عوام کی خدمت کے دعوے محض دعوےہی ہیں ۔
افسوس کا مقام ہے کہ عوام کا درد دل میں رکھنے والے ہمارے حکمران کبھی سرکاری عہدیداران کو حکومت کی طرف سے دی جانے والی ان مہنگی مراعات اور غیر منطقی سہولیات ختم کرنے کی بات نہ کرتا ہے نہ ہی جرات کرتا ہے ۔ کیونکہ سب کا مفاد تو یہ کرسی ہے ۔
سرکاری ملازمین کو نہ صرف مفت پٹرول بجلی بلکہ سرکاری گاڑیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں جن کے بے دریغ استعمال کی وڈیوز سوشل میڈیا پر بھی زیر گردش کرتی رہتی ہیں ۔
اگر بچت ہی کرنا ہے تو تمام سرکاری عہدیداران کو پابند کیا جائے کہ ان کی جانب سے وسائل کا بے دریغ اور غلط استعمال نہیں کیا جائیگا
ملک میں فوری مالیاتی ایمرجنسی کا نفاذ کرنا چاہیے تمام سرکاری محکموں سے اپنے اخراجات 50 فیصد تک کم کرنے کا کہا جائے۔
مفت پٹرول، فری بجلی پر پابندی، گاڑیاں 1300 سی سی سے بڑی سرکاری گاڑیوں کا استعمال ربند کیا جائے۔
ایک سے زیادہ پروٹوکول یا اسکیورٹی گاڑی پر مکمل پابندی ہو۔ بلیو بک میں درج عہدے داروں کے علاوہ جسے بھی سکیورٹی درکار ہو وہ خود اخراجات برداشت کرے۔پولیس سکیورٹی میں سرکاری گاڑیاں دینا بند کیا جائے۔تمام سرکاری دوروں کو محدود کر دیا جائے۔ تمام میٹنگز اور کانفرنسز ورچول کر دی جائیں۔ ٹی اے ڈے بند کر دیا جائے۔
تمام ملٹی نیشنل کمپنیز کو دفاتر نیشنل گریڈ سے سولر سسٹم پر مبتقل کرنے کا کہا جائے۔گھریلو استعمال کیکئے سولر سسٹم پر بغیر سود ، آسان اقساط قرضے دئیے جائیں ۔
مسلح افواج کے غیر دفاعی اخراجات میں تیس فیصد کمی لائی جائے۔ افسران کی سفری مراعات ختم کر دی جائیں۔ تمام پروٹوکول اور سکیورٹی گاڑیوں پر پابندی لگائی جائے۔ذاتی استعمال کی گاڑیوں کے اخراجات افسران خود برداشت کریں۔ فوجی اداروں کے کاروبار کو حاصل مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔دوبارہ ملازمت کرنے والوں کی پینشن بند کر دی جائے۔
تمام وزرا اور پارلیمنٹیزینز کی تنخواہ اور تمام مراعات بشمول ٹی اے ڈی فوری بند کر دی جائیں۔ صرف تنخواہ کوئی بھی وزیر یا پھرپارلیمان کا ممبر بیان حلفی دے کر لے سکے کہ اُسے ضرورت ہے۔صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزرائے اعلی، تمام صوبائی اور وفاقی کابینہ کا بجٹ نصف کیا جائے۔
یہ تو حالات کا تقاضا ہے کہ مہنگائی کا جتنا بوجھ عوام پر منتقل کیا جاتا ہے اتنا ہی بوجھ اس بار سرکاری اشرافیہ پر بھی منتقل کیا جائے
تاکہ یہ مان لیا جائے یہ قیمتوں میں ملکی معیشت کو درپیش چیلینج کے حل کیلئے ہی ہیں کیونکہ اشرافیہ کی عیاشیوں کو نظرانداز کرکے، تمام بوجھ عوام کو منتقل کرنا، سراسر عوام اور ملک دشمنی ہے۔
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
#Pakistan mein 9 aur 10 #Muharram ko riwayati tor par gharon mein HALEEM tyar kiya jata hai.
Mazeed Jaaniye … twitter.com/i/web/status/15555…
Qaum ko apna 75wa #JashneAzadi Mubarak ho Yehi Dua hai kay Pakistan tarraqi khushhali ka safar tay karta rahay aur… twitter.com/i/web/status/15555…
#Kashmir ki khususi haisiyat ko khtam huay teen saal mukamal hogaye hein 5 August ko Youme Istehsale #Kashmir mana… twitter.com/i/web/status/15554…
#Drones na sirf fauji maqasid kay liye istemal kiye jatay hein balkay inko imdadi kamon aur photography mein bhi is… twitter.com/i/web/status/15554…
Pakistani squad announced Pakistan today announced its 16-player roster for the ICC Men's Cricket World Cup Super… twitter.com/i/web/status/15551…
Your email address will not be published. Required fields are marked *