AsiaCup Squad 808x454

ایشیاء کپ کے مجاہد ہی اب ورلڈ کپ کے محاذ پر

56 views

پی سی بی کے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 اور انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لئے پاکستانی اسکواڈ کا اعلان کیا تو وہ حیرت ناک ضرور تھا لیکن ناقابل یقین نہیں۔

تحریر: عدنان حسن سید

ایشیا ء کپ میں کپتان بابر اعظم  اور فخر زمان کے آ ؤٹ آف فارم ہونے اور مڈل آرڈرکی مستقل ناکامی کے بعد نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ عالمی میڈیا بھی بیٹنگ کے شعبے میں موثر تبدیلیوں کا انتظار کررہا تھا لیکن کمزور توجیحات کے ساتھ  کم و بیش ایشیاء کپ کی ہی ٹیم کو برقرار رکھتے ہوئے محمد وسیم نے عندیہ دے دیا کہ پاکستان کرکٹ ذاتی انا ؤں اور پسند نا پسند پر ہی  گھومتی رہے گی۔

اگر موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ آپ معجزاتی طور پر جیت گئے تو کیا کہنا ورنہ بدقسمتی،  ناتجربہ کاری اور فٹنس کے بہانے تو ہمارے پاس ہر وقت تیار رہتے ہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ان خود ساختہ بدقسمتیوں کا ذکر تفصیل سے کریں، پہلے ذرا ان ناموں پر نظر ڈال لیتے ہیں جن کا اعلان کیا گیا ہے:

برائے ورلڈ کپ :بابراعظم[کپتان]،   شاداب خان [نائب کپتان]،  محمد رضوان، افتخار احمد، خوشدل شاہ، آصف علی، محمد نواز، حیدر علی، حارث ر ؤف، نسیم شاہ، محمد حسنین، شاہین شاہ آفریدی، عثمان قادر، شان مسعود،محمد وسیم جونئیر۔

ٹریولنگ ریزروز:  فخر زمان،شاہنواز دھانی، محمد حارث۔

انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لئے مذکورہ بالااٹھارہ کھلاڑیوں میں فخر زمان اور شاہین شاہ آفریدی کی جگہ نئے ناموں ابرار احمد اور عامر جمال کو شامل کیا گیا ہے۔

تو بیٹنگ کی طویل بحث کی طرف جانے سے پہلے بات بولنگ سے شروع کرتے ہیں۔فاسٹ بولرز میں شاہین شاہ آفریدی کی واپسی تو متوقع تھی لیکن ان کی فٹنس   ابھی تک کنفرم نہیں ہے۔ وہ اگلے ماہ بولنگ کا آغاز کریں گے اور 7تا14اکتوبر کو کرائسٹ چرچ میں بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والی سہہ فریقی سیریز سے پہلے ایکشن میں نظر آنہیں سکیں گے۔

محمد وسیم جونئیر کی واپسی بھی خوش آئند ہے کہ وہ بولنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ میں بھی گہرائی فراہم کرتے ہیں۔ حارث ر ؤف اورنسیم شاہ کی کارکردگی تو ان کو سلیکٹ کرتی ہی ہے لیکن فائنل اسکواڈ میں دھانی کی جگہ حسنین کو فوقیت دینا ذرا سی زیادتی لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دھانی ساری زندگی صرف ریزرو کھلاڑیوں میں شامل رہیں گے ۔

بہرطور فاسٹ بولنگ کے شعبے سے حسن علی کا اخراج فی الحال خوش کن ہے ۔ امید ہے اب ان کو فارم حاصل کرنے سے پہلے سلیکٹ نہیں کیا جائے گا۔ اسپن بولنگ کے شعبے میں شاداب اور نواز کی اہمیت ان کی بیٹنگ صلاحیتوں کی بدولت بھی بڑھ جاتی ہےاور لگتا یہی ہے کہ ان کو بولنگ کے ساتھ ساتھ مڈل آرڈر بیٹنگ کی ناکامی کو کور کرنے کا کردار بھی نبھانا پڑے گا۔

شاداب مکمل طور پر فٹ نہیں ہیں اور اگر ان کو آرام دینے کی غرض سے عثمان قادر کوچانس ملتا ہے تو عثمان کو اپنا زنگ اتار کے میدان میں آنا ہوگا۔ ایشیاء کپ میں سری لنکا کے خلاف کی گئی غیر ذمہ دارانہ بولنگ جیسی پرفارمنس سے وہ بہت جلد بینچ سے بھی دور ہوسکتے ہیں۔ ویسے اگر ان کو بھی دوسرے عوامل کے تحت طویل عرصے تک سلیکشن کی یقین دہانی کروادی گئی ہے تو دوسری بات ہے۔

بیٹنگ کی طرف آئیں تو کپتان بابر اعظم کی فارم یقیناً سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جب فارم تھی تو غیر موثر مڈل آرڈر کی خامیاں بھی چھپی رہتی تھیں،  اب وہ بھی کھل کے سامنے آگئی ہیں۔ ممکن ہے کہ بابر کے اسٹرائیک ریٹ سے لوگوں کو پرابلم ہو لیکن جتنی بھی کامیابیاں حالیہ دور میں سمیٹی گئیں وہ اسی کنڈیشن میں ہی آئی ہیں۔ اب یہ تنکے کا سہارا بھی نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟

یہی حال رضوان کا بھی ہے کہ بابر کی ناکامی کے باعث ان کا محدود شاٹ سلیکشن بھی ایکسپوز ہوگیا ہے ۔ وہ آف سائیڈ پر یا سیدھا شاٹ نہیں مار پاتے حتی کہ ایک رن کے لئے بھی نہیں۔ فاسٹ بولر ان کو آف اسٹمپ سے باہر ڈاٹ بالز کرواتے ہیں اور پھر باؤنسر مار کے آؤٹ کردیتے ہیں۔ ایسے ہی لیگ اسپن کو بھی رضوان آن سائیڈ پر لپیٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور اچانک پھینکی گئی گگلی پر ایل بی ڈیبلو ہوجاتے ہیں۔قسمت اچھی ہو تو رضوان ففٹی ضرور بنا لیتے ہیں اور عالمی رینکنگ میں اوپر بھی آجاتے ہیں لیکن اس سے ٹیم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

افتخار،  خوشدل اور آصف کی تو خیر شان ہی نرالی ہے۔ یہ اسپیشلسٹ بیٹسمین ہیں لیکن کپتان ان کو صرف ٹیم میں شامل کرتے ہیں اور عملی طور پر ان سے زیادہ اعتماد آل راؤنڈرز پر کرتے ہیں۔ گزشتہ چار سال سے افتخار سو سے کم اسٹرائیک ریٹ پر اسکور کرکے اپنا ذاتی اکاؤنٹ بھر لیتے ہیں اور پھر ہٹ آؤٹ کرنے کے بہانے کیچ دے کر چل دیتے ہیں۔

اس ہٹ آؤٹ کی نوبت بھی اسی لئے آتی ہے کہ افتخار کے کریز پر آنے کے وقت مطلوبہ رن ریٹ  اگر 7ہوتا ہے تو چھ سات اوورز میں افتخار اس کو گیارہ بارہ پر پہنچا دیتے ہیں۔ کیرئیر کے 24میچز میں افتخار نے صرف ایک نصف سنچری بنائی ہے اور وہ بھی ہارے ہوئے میچ میں۔ کوئی میچ وننگ پرفارمنس نہ ہونے کے باوجود گھما پھرا کے ان کو سلیکٹ کرلیا جاتا ہے اور اب بھی ایشیاءکپ فائنل میں ان کی سست بیٹنگ پر ہوئی لے دے کے باوجود وہ ٹیم میں نمبر چار کی اہم پوزیشن پر براجمان ہیں ۔ نہ جانے اس

نوجوان کھلاڑی کا آگے کیا ہوگا۔

آصف علی کی ٹیم میں افادیت بھی ایک معمہ ہے۔ وہ مڈل آرڈر بیٹسمین ہیں لیکن ان کو سات یا آٹھ نمبر پر بھیجا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ  ان کا کام آخر میں چھکے مارنا ہے ۔ یہ کام آصف نے گزشتہ ورلڈ کپ کے دو میچز میں تو کرلیا لیکن اس کے آگے پیچھے راوی سناٹا ہی سناٹا لکھتا ہے۔ گزشتہ گیارہ ٹی ٹوئنٹی اننگز میں وہ 21سے زیادہ اسکور نہیں کرپائے ہیں اور آٹھ بار تو ڈبل فگر میں بھی نہیں پہنچے۔

اس دوران وہ تین بار صفر اور ایک بار 1 کے اسکور پر آؤٹ ہوئے۔ واضح رہے کہ ایشیاء کپ کی آخری دو اننگز میں وہ پہلی گیند پر ڈک کا شکار ہوئےاور اگر بھارت کے خلاف صفر پر ان کا آسان کیچ ڈراپ نہ ہوتا تو یہ ٹورنامنٹ ان کے لئے مزید بھیانک ثابت ہوتا۔ اننگز کے آخر میں بڑی ہٹس کا ذمہ زیادہ تر آل راؤنڈرز اور اب تو ٹیل اینڈرز بھی لینے لگے ہیں۔ بیس میچز میں ایک بار یہ تکا لگنے کے انتظار میں ایک اسپیشلسٹ بیٹسمین کا مسلسل کھیلتے رہنا حیرت انگیز نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ان کی تکنیک یا افادیت پر تین اوور سے زیادہ کپتان کو بھی بھروسہ نہیں اور اسی لئے ان سے پہلے شاداب،  نواز اور حسن علی تک کو بھیج دیا جاتا ہے۔

خوشدل شاہ کو بھی ہار ڈ ہٹنگ کے بہانے سلیکٹ کیا جاتا ہے لیکن یہ کام انہوں نے اب تک صرف زمبابوے اور ہانگ کانگ کے خلاف ایک ایک بار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف لیگ سائیڈ پر اونچا شاٹ کھیل سکتے ہیں اور تجربہ کار ٹیمیں ان کی یہ کمزوری پکڑ چکی ہیں۔افتخار اور آصف تو تیز رن بنانے کی کوشش کرتے ہوئے آؤٹ ہوتے ہیں،  خوشدل تو یہ بھی نہیں کرتے۔

ان کو پتہ ہے کہ شاٹ نہیں لگنے تو آرام سے ڈاٹ بال یا ایک رن پر گزارا کرتے ہیں جو ٹیم کے لئے زہر قاتل بن جاتا ہے۔بیس کی اوسط اور اچھی ٹیموں کے خلاف غیر موثر ہونے کے باوجود خوشدل شاہ ورلڈ کپ میں پاکستان کو جتوا سکتے ہیں ؟ اس بات کا جواب کپتان،  چیف سلیکٹر یا چئیرمین پی سی بی ہی دے سکتے ہیں۔ہمارے خیال میں تو اگر بیٹنگ آرڈر میں ان سے پہلے شاداب یا نواز کو ہی آنا ہے تو بہتر ہے کہ ان کی جگہ کوئی اضافی بولر یا آل راؤنڈر کھلا لیا جائے۔

دوسری جانب انجرڈ فخر زمان کی جگہ شان مسعود کی شمولیت خوش آئند ہے تاہم فخر کو انجری کے باعث نہیں بلکہ خراب فارم کے باعث بھی آرام دینے کی ضرورت تھی ۔ پتہ نہیں مینجمنٹ کسی کو بھی فارم کے نام پر ڈراپ کرنے میں کیوں شرمندگی محسوس کرتی ہے کہ نہیں اس کو تو پوری سیریز کھلانی ہے۔ یہی پالیسی گزشتہ ورلڈ کپ میں مسلسل حسن علی کو کھلاتے رہنے اور سیمی فائنل ہارنے کا سبب بنی۔ اب بھی فخر زمان اگر انجرڈ ہیں تو بغیر فٹنس کنفر م کیے ان کو ٹریولنگ ریزروز میں کیسے شامل کرلیا گیا۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔

وکٹ کیپنگ میں پھر رضوان کا ذکر آئے گا کہ پورے ایشیاء کپ میں لنگڑاتے رہنے کے باوجودرضوان نہیں چاہتے کہ وہ آرام کریں  اور سرفراز پکچر میں آجائیں۔ ریزرو کیپر کے طور رکھا بھی گیا ہے تو محمد حارث کو جو اپنی ڈیبو سیریز میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور پی ایس ایل کی ایک آدھ اننگز کے علاوہ پاکستان کپ اور قومی ٹی ٹوئنٹی میں بھی ان کی کوئی کارکردگی نہیں

بلکہ حالیہ قومی ٹی ٹوئنٹی میں سرفراز احمد کی اوسط ان سے تین گنا زیادہ ہے۔شاید اسی لئے رضوان ہالینڈ کے خالف ایک میچ میں آرام کرکے ان کو کھلانے پر راضی ہوگئے تھے کہ حارث سے انہیں اپنی جگہ کے بارے میں کوئی خطرہ نہیں۔

کہنے کو تو ابھی بہت کچھ ہے جس میں بابر اعظم کی کپتانی اور ڈومیسٹک کے پرفارمرز سے زیادتی سر فہرست ہے،  تاہم اس کے لئے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ  کے اختتام اور انگلینڈ کے خلاف سیریز تک کا انتظا ر کرلیتے ہیں۔ اگلی نشست میں ان موضوعات اور کچھ دیگر باتوں کا احاطہ کریں گے۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *