PakistamTeam Final 808x454

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل بس کیا کریں قدرت کو یہی منظور تھا

64 views

کسی بھی عالمی ایونٹ کے فائنل میں پہنچ کے ہارنے پر یقیناً مایوسی بھی ہوتی ہے اور غصہ بھی آتا ہے۔ پورے ٹورنامنٹ کی محنت پر ایک دن کی  غلطیاں پانی پھیر دیتی ہیں تو ماحول افسوس ناک ہوجاتا ہے۔ تاہم اگر آپ پہلے سے وہ غلطیاں نہ کررہے ہوں،  اپنی بھر پور کوشش ٹیم کے حوالے کررہے ہوں اور تمام اعدا و شمار کے لحاظ سے صورت حال آپ کے حق میں ہو،  تب شکست کا زیادہ دکھ ہوتا ہے۔

عدنان حسن سید

کیونکہ تب کوئی ان دیکھی یا غیر متوقع چیز آپ کے آڑے آجاتی ہے یا کوئی نئی جہت آپ کو حیران کردیتی ہے۔ اگر پہلے ہی والی غلطیاں دہرائی جارہی ہوں،  ان سے سبق نہ سیکھا جارہا ہو،  اعداد و شمار سے مدد نہ لی جارہی ہو اور سب کچھ قدرت اور قسمت پر چھوڑ دیا جائے تو ایسی شکست کا افسوس تو ضرور ہوتا ہے لیکن نہ وہ چونکا تی ہے اور نہ راتوں کی نیندیں اڑاتی ہے۔

مزید پڑھیں:

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دلچسپ اور حیرت انگیز ریکارڈ

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان کی انگلینڈ کے ہاتھوں شکست بالکل غیر متوقع نہیں تھی۔ صرف جذبہ ء حب الوطنی تھاجو ہمیں کسی قسم کی امید سے باندھے ہوا تھا یا پھر وہی 1992کے فائنل والے موازنے اور توہمات،  ورنہ خالصتاً کرکٹ کی بنیادوں پر سوچا اور دیکھا جائے تو ہر لحاظ سے انگلینڈ ہی فیورٹ تھا۔

جوز بٹلر اور بین اسٹوکس کے بغیر وہ آپ کو پاکستان میں سیریز ہرا کے گیا تھا۔ عادل رشید کے سامنے بابر اعظم کی کمزوری بھی کوئی نہیں بات نہیں تھی۔ انگلینڈ کی بیٹنگ میں گہرائی بھی سب کو پتہ تھی اور دونوں ٹیموں کی بیٹنگ میں جارحانہ عنصر کا فرق بھی سامنے کی چیز تھی۔ شاہین آفریدی بڑے میچ کے حساب سے فٹ نہیں ہیں،  یہ ورلڈ کپ سے پہلے پتہ تھا۔

مزید پڑھیں:

پاکستان کرکٹ ٹیم اور ڈیزل سے چلنے والا انجن

اوپنرز پاور پلے میں تابڑ توڑ نہیں کھیل سکیں گے،  سب جانتے تھے۔ اپنے حصے کا کام کیے بغیر ہم صرف یہ توقع کررہے تھے کہ انگلینڈکا یہ برا دن ہو تو ایسا تو ہونا تھا۔ بقول ہمارے ہیڈ کوچ کبھی دن کبھی رات کے حساب سے بھی رات تو آنی تھی۔

مزید پڑھیں:

ورلڈ کپ کی پہلی شکست بابر اعظم کے نام

نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں اعداد و شمار ہمارے حق میں تھے۔ ایک فائنل ہم ان کو گزشتہ ماہ ان کے ملک میں ہرا چکے تھے اور عالمی لیول کے سیمی فائنلز میں بھی ہمارا ریکارڈ ان کے خلاف اچھا ہے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کو ان کے خلاف فارم میں آنے میں بھی کوئی مشکل نہیں ہونی چاہے تھی اور ان کی بیٹنگ نے تو ہماری بولنگ کے خلاف مشکلات کا شکار ہونا ہی تھا.

مزید پڑھیں:

معجزات اور قدرت کی مددسے پاکستان سیمی فائنل میں

لیکن اسی فارمولے اور کمبی نیشن کے ساتھ فائنل میں انگلینڈ کے خلاف اترنا عقل مندی نہیں تھی۔ ہمیں عادل رشید کے کردار کو ذہن میں رکھ کے بیٹنگ آرڈر اور حکمت عملی بنانی تھی۔ پاکستان کی اننگز کے گیارہویں اوور میں شان مسعود نے لائم لیونگسٹن کی پٹائی کرکے مومینٹم بنادیا تھا لیکن بارہواں اوور عادل رشید نے بابر اعظم کی وکٹ کے ساتھ میڈن کرکے میدان وہیں جیت لیا۔ آسٹریلیا کے ایکسپرٹ افتخار احمدبری طرح بے بس دکھائی دیئے اور وہیں ان اہم 20رنز کی کمی کی بنیاد پڑ گئی جو ہمیں میچ ہرا گئی۔

بولرز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کہ وہ 138رنز کے ہدف کے دفاع میں بھی میچ کو اتنے قریب لے آئے۔ خاص طور پر نسیم شاہ،  حارث رؤف اور شاداب خان نے جو جان ماری وہ پاکستان کرکٹ کے لئے خوش آئند ہے۔ تاہم ایک بار پھر بابر اعظم کی ناقص اور سوچ سے عاری کپتانی نے بولرز کی کوشش پر پانی پھیر دیا۔

بابر جو ڈریسنگ روم سے سوچ کے آتے ہیں وہی کرتے ہیں اور میچ کا کوئی موڑ ان کا ارادہ بدلتا نہیں ہے۔ وہ سوچ کے آئے کہ محمد نواز سے گیند نہیں کرائیں گے تو نہیں کرائی۔ یہ بات ان سے ہیڈ کوچ یا کوئی بھی اور پوچھ نہیں سکتا۔

اعدادو شمار پر نظر ڈالتے توہیری بروکس اسپنرز کے خلاف مشکل میں گھرتے ہیں اور زیادہ تر اسپن پہ آؤٹ ہوتے ہیں لیکن بابر اس پر بھی نواز کو نہیں لائے۔ اگر وہاں نواز دو اوورز کرا دیتے تو آخر میں شاہین آفریدی کی انجری ہمیں بھاری نہیں پڑتی لیکن یا تو بابر کو چھ بولرز استعمال کرنا پسند نہیں یا نواز سے ان کو کوئی ذاتی پرخاش ہوگئی ہے۔ یہ تحقیق کرنا اب بورڈ کا کام ہے۔

مزید پڑھیں:

کیا سہ فریقی سیریز کی کامیابی ورلڈ کپ میں دہرائی جائے گی؟

بابر کی کپتانی پہ اتنی تنقید ہم کرچکے ہیں کہ آج کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ آج ہیڈ کوچ یا چیف سلیکٹر کو بھی ہم کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ جو ہوا وہ تو پہلے سے معلوم تھا۔ اب ذرااس ٹورنامنٹ کے مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ سب سے پہلے تو محمد حارث نے خود کو نئے سرے سے دریافت کرلیا ہے اور عالمی مبصرین کی تعریف بھی سمیٹی ہے،  یہ مستقبل کے لئے ایک اچھا اشارہ ہے کہ ذرا تجریدی اسٹائل کا ایک ٹاپ آرڈر بیٹسمین ہمیں مل گیا ہے۔

سفید گیند سے نسیم شاہ نے بھی بولنگ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور ان کا شمار اب بین الاقوامی معیار کے فاسٹ بولرز میں ہونے لگا ہے۔ البتہ سب سے اچھی نشانیاں ہمیں نائب کپتان شاداب خان اور شان مسعود سے ملتی ہیں جنہوں نے اپنے کپتان کے برخلاف کئی مواقع پر صورت حال کو سنبھال کے اچھے ٹمپرامنٹ اور مزاج کا ثبوت دیا۔ ممکن ہے کہ اگر قائدانہ تبدیلی بورڈ کی نظر میں ہو تو ان دونوں کے نام زیر غور آجائیں۔

مزید پڑھیں:

روک سکو تو روک لو یہی لڑکے ہیں یہی کھیلیں گے

 عالمی کپ کے ایک اور فائنل میں پہنچ جانا ضرور ایک اعزاز ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ اس کو کامیابی کا پیمانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس حادثاتی اور جزوی کامیابی کو غلطیاں چھپانے اور کمزوریوں کی نشاندہی نہ کرنے کے کام میں لانے کی کوشش بالکل نہیں کرنی چاہئے۔مثلاًبابر اعظم ایک اچھے کھلاڑی لیکن انتہائی ناقص کپتان ہیں،  ان کو فری ہینڈ دینے کے بجائے ان پر کنٹرول رکھنے کی ضرورت ہے۔

نیم فٹ کھلاڑیوں کو اعلیٰ سطح کے ایونٹس میں بھیجنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ گیم پلان بناتے ہوئے شہرت کو نہیں بلکہ اعداد وشمار کو اہمیت دینی چاہئے۔ نئے کھلاڑی چنتے ہوئے صرف پی ایس ایل کو نہیں بلکہ قومی ٹورنامنٹس کو دیکھنا بھی ضروری ہے،  اور ان پرفارمرز کو پی ایس ایل میں بھی ترجیح دینا ناگزیر ہے۔

آصف علی،  حیدر علی اور خوشدل شاہ جیسے کھلاڑیوں کو آٹو میٹک سلیکشن بنانے کے بجائے ان کی تکنیک پر کام کی ضرورت ہے ورنہ ان سے معذرت کرلی جائے۔ کوچ اور ہیڈ کوچ وغیرہ کی تقرری کے وقت یہ ضرور دیکھا جائے کہ ان کااپنا کھیل اور سوچ جدید تقاضوں سے کتنا ہم آہنگ ہے۔

اسی طرح کپتان کو بھی ہر فارمیٹ میں کپتان بنا کے لازم و ملزوم نہ بنایا جائے ورنہ وہ انا پرستی اور ہٹ دھرمی کا شکار ہوجاتا ہے اور سب کا نقصان کرتا ہے۔ یہ ساری باتیں مدنظر رکھی جائیں تو شاید مستقبل پاکستان کرکٹ کے لئے کوئی بہتر اور پائیدار قسم کی تبدیلی لاسکتا ہے،  لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ نکات صرف دور بیٹھنے والے مبصرین یا ہم جیسے شائقین کی ہی سمجھ میں آتے ہیں۔

بورڈ اور اس کے اراکین اور مینجمنٹ تو ہر وقت سب اچھا کا ہی راگ الاپتی ہے۔ چلیں وہ اپنا کام کرتے رہیں گے

پاکستانی کوچ کی ٹیم قدرت کے حوالے

اور ہم اپنا۔ ایک اور ورلڈ کپ ناقص پلاننگ اور انا پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا لیکن ٹیم مینجمنٹ تو یہی کہے گی کہ قدرت کو یہی منظور تھا،  ہم تو آپ کو عالمی کپ سے پہلے ہی ذہنی طور پر اس کے لئے تیار کرگئے تھے۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *