راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
ٹی وی، فلم اور تھیٹر میں اپنی اداکاری سے مداحوں کے دل میں گھر کرنے والے لیجنڈ اداکار افضال احمد اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افضال احمد پچھلے کئی سال سے فالج کے مرض کی وجہ سے زیرِ علاج تھے۔ انہیں برین ہیمبریج کے باعث گزشتہ روز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔
اداکار افضال احمد اور قوی خان کی جوڑی نے اپنے زمانے میں بےحد شہرت حاصل کی، وہ افضال چٹہ کے نام سے مشہور ہیں۔
انہوں نے جزیرہ، چل سو چل سمیت متعدد ڈراموں اور 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ شعلے، شریف بدمعاش، وحشی جٹ، عشق نچاوے گلی گلی ان کی مشہور فلموں میں شامل ہیں۔
ستر کی دہائی میں پاکستان کی چھوٹی اور بڑی سکرین پر ایک چہرہ نمودار ہوا، جس نے اپنی خوبصورت پرفارمنس، عمدہ ڈائیلاگ ڈیلیوری اور دل کش آواز کے ذریعے ناظرین اور فلم بینوں کے دلوں میں نہ صرف جگہ بنا لی۔
بلکہ سکرین پر موجود ایسی قابل اعتماد شناخت کی صورت اختیار کر لی، جس کی موجودگی، سب کے لئے قابل توجہ اور باعث کشش ہو سکتی ہو۔
منفی کرداروں میں پہچان حاصل کرنے کے ساتھ، اس فنکار کی یہ مثبت خوبی بھی زیادہ دیر پوشیدہ نہ رہ سکی کہ یہ باصلاحیت فنکار صرف ولن ہی نہیں، ایک ہمہ جہت خوبیوں کا مالک، ہر فن مولا اداکار ہے، جو جہاں، جس کردار میں منتخب ہو، اس میں ڈھلنے اور اسے حقیقت کے رنگ میں ڈھالنے کا گر جانتا ہے اور یہ وہ صفت ہے جو کم فنکاروں کا مقدر ہوتی ہے۔
اشفاق احمد کے تحریر کردہ اچے برج لاہور دے اور منو بھائی کے لکھے جزیرہ سے لوگوں کی توجہ اور محبت اور ناقدین کی تائید حاصل کرنے والے اس فنکار نے اپنی جاندار پرفارمنس سے کتنے ہی کرداروں کو زندہ جاوید بنا دیا۔
لوگوں کے ذہنوں اور ان کی یاداشت میں محفوظ، شاندار کردار نگاری کی یہ فہرست اس قدر طویل ہے کہ ان کی یاد دہراتے ہوئے متاثر کن فن پاروں کی ایک گیلری سی کھلتی دکھائی دیتی ہے۔
بلوچ تاریخ کے مشہور کردار چاکر اعظم کو عصر حاضر میں بھر پور طریقے سے متعارف کرانے والا اداکار کون تھا جس کی ستائش کے لئے بلوچستان کے ممتاز شاعر عطا شاد نے کہا
” چاکر ہمارے ہاں ایک ایسا سمبل ہے کہ اس کے کردار کی خرابیاں اور خوبیاں ہونے کے باوجود، آج بھی قبائلی نظام کی وہ ایک بڑی شخصیت ہے۔ اس طرح کے کردار جس کے ساتھ لوگوں کو ایک عقیدت ہو اور اس کی پرفارمنس ( کے لئے ضروری ہے کہ ) اس معیار پر ہو کہ لوگ کہیں یہ چاکر اعظم ہے“
اشفاق احمد کے متعارف کردہ اور ان ہی کی لکھی سیریز اچے برج لاہور دے کے ایک کھیل کارواں سرائے، میں انیس بیس سالہ اداکار کو پچاس پچپن سالہ کردار ادا کرنے پر ممتاز نقاد اور ادیب صفدر میر نے یوں سراہا کہ
ڈرامہ سیریل جزیرہ کے خالق منو بھائی کہتے ہیں
” اس سیریل میں انھوں نے جو کیرکٹر کیا تھا وہ ایک مشکل کیرکٹر تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ جب انھیں یہ دیا گیا تو کافی پریشان ہوئے کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ ایک نارمل کیرکٹر ہے۔ ( میری نظر میں ) سب سے مشکل ایک نارمل کیرکٹر ہوتا ہے۔ اسے ابنارملی، نارمل بنانا ہوتا ہے، تو ( اس کی ادائیگی کا مرحلہ ) کتنا مشکل ہو گا۔ انھوں نے اس کو ڈیویلپ کیا“
لاہور میں تھیٹر کی دنیا میں انقلاب لانے کا انوکھا خیال کس کے ذہن میں آیا اور ٹیلی وژن اور فلم کی طرح اپنی تخلیقی کاوشوں سے، تھیٹر پر نئے رجحانات پیش کر کے، ( نئے فنکاروں کو متعارف کرانے کے ساتھ ) ، نئے موضوعات کی تلاش کر کے، کس نے اپنا سکہ جمایا اور کامیابیوں کی نئی تاریخ رقم کی۔
مگر افسوس افضال احمد جس کی فنکارانہ قدوقامت، پرفارمنس کا اعلی ریکارڈ اور ہمہ جہت پیشہ ورانہ شخصیت، کسی بھی قومی اعزاز کے لئے باعث افتخار ہو سکتی ہے۔
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ افظال احمد زندگی کے کم وبیش 30 سال پرفارمنس آرٹس کو وقف کر دینے کے باوجود،ان گنت اردو اور پنجابی فلموں میں خاص و عام سے داد وصول کرنے کے باوجود،بے شمار ٹی وی ڈراموں سیریلز اور سیریز کے کرداروں کو زندگی بخشنے کے باوجود،نئی جہت کے تھیٹر ( تماثیل ) کی بنیاد رکھنے کے باوجود۔
پاکستانی تھیٹر کی تاریخ کے سب سے طویل عرصہ چلنے والے کھیل (جنم جنم کی میلی چادر ) کی بے مثال ریکارڈ توڑ کامیابی کے باوجود،کسی قومی اعزاز کے مستحق قرار نہیں پائے۔
جی ہاں یہ حقیقت ہے کہ افضال احمد جو ( بذات خود ) اپنی فنی قامت اور تخلیقی صلاحیت منوانے کے لئے یقیناً کسی تائید ( اور تصدیق ) کے محتاج نہیں، مگر یہ معاشرے اور اس کے فیصلہ سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اقدامات سے اپنی بصیرت اور بصارت ثابت کرنے کے لئے فنکار کی قدر و منزلت کا شعور رکھتے ہوں۔
نہیں معلوم اس کوتاہ بینی، مجرمانہ غفلت، اور ایک بلند پایہ فنکار کی عظمت سے مسلسل چشم پوشی کا سزاوار کون ہے۔وہ کون ہے جس کی آنکھیں افضال احمد کی فنکارانہ چمک اور جگمگا ہٹ سے چندھیائی نہیں۔
وہ کون ہے جو اداکاری کے معیار اور عوامی مقبولیت کے اقرار سے اس قدر بے خبر ہے۔وہ کون ہے جس کی کسوٹی، ایک تسلیم شدہ عظمت کو پرکھنے کی سطح تک آنے کی اہل نہ ہو سکی۔
یہ منظر کشی، تصویر کا محض انفرادی رخ ہے، جو بلاشبہ نہایت افسوس ناک اور بجا طور پر عدم توجہی اور ناقدری کی شرم ناک مثال ہے مگر یہ سوالات اس وقت اور معنی خیز، اور مزید تکلیف دے ہو جاتے ہیں جب قومی اعزازات کے انعام یافت گان کی فہرست کو ٹٹولا جائے تو یہ حیرانی ( اور اس سے بڑھ کے ) صدمہ دو چند ہوجاتا ہے کہ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ افضال احمد جیسے بلند قامت کو، یہاں ابھی تک شمار نہ کیا گیا ہو۔
یہ سارے سوالات ابھی جواب طلب ہیں، مگر اس کہانی کا المیہ یہ ہے کہ فن سے عشق اور کام سے جنون کی سزا بھی، کسی اور کا نہیں، ایک حساس فنکار کا ہی مقدر ہوئی۔
آج افضال احمد، قدرت کی آزمائش سے دوچار ہوتے ہوئے خالق حقیقی سے حاملے۔
وہ آواز جو بے جان اور سادہ الفاظ میں زندگی بھر دیتی تھی۔ وہ آواز جس کا اتار چڑھاؤ منظر اور مکالمے کی معنویت کا حق ادا کر دیتا تھا۔ وہ آواز جس کا تاثر، دیکھنے اور سننے والا، اپنی سماعت کی سوغات تصور کرتا تھا۔
اور، اس بات سے بھلا کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ ہماری چھوٹی اور بڑی سکرین ( اور تھیٹر کی وسعت ) ہمیشہ ان کی دلنشیں آواز کی مقروض رہے گی۔
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
Error: Could not authenticate you.
Your email address will not be published. Required fields are marked *