1971war PAF 720x454

“جنگ اکہتر: پاک فضائیہ 14اسکواڈرن ” ان ایکشن اینڈ ناٹ مسنگ دی ٹارگٹ

45 views

قوموں کی زندگیوں میں کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو پرانے ہوجاتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ہرے ہی رہتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی دسمبر ایک ایسا مہینہ ہے جس سے پاکستان کی نہایت تلخ اور الم ناک یادیں جڑی ہیں  چاہے وہ سانحہ آرمی پبلک اسکول ہو یا پھر سقوط ڈھاکہ کی تکلیف دہ یادیں ہمیشہ ستاتی رہینگی ۔

فہمیدہ یوسفی

سقوط ڈھاکہ کے بارے میں یہی تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ  بنگلہ دیش جو پہلے مشرقی پاکستان تھا وہاں مغربی پاکستان کی جانب سے ظلم و ستم کا بازار روا تھا  جبکہ حیران کن طور پر مکتی باہنی شیخ مجیب الرحمن کے کردار پر زیادہ بات نہیں کی جاتی ۔ تاہم جب تاریخ کے اوراق پلٹے جارہے ہیں تو نظر آتا ہے کہ اپنوں اور پرایوں کے زخموں سے بھری یہ داستان کوفہ اور بازار شام کی یاد تازہ کردیتی ہے ۔

اس حقیقت سے کوئی انکا ر نہیں کرسکتا کہ پاکستان کا قیام شروعات سے ہی بھارت  کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے اور رہیگا ۔

بھارت  نے پاکستان کے خلاف پہلے دن سے ہی اپنی  سازشوں کا آغاز کردیا تھا  ۔مغربی پاکستان سے ہزار میل کی دوری پر مشرقی پاکستان کو بھارت نے اپنی سازشوں کا گڑھ بنالیا اور وہاں آہستہ آہستہ نسلی اور لسانی تعصب کو بڑھاوا دینا شروع کیا جسے آج پراکسی وار کا نام دیا جاتا ہے بھارت نے اس کا ہر ممکن  استعمال پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا ۔

اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے  روسی خفیہ ایجنسی KGB کے سابقہ آفیسر Yuri Bezmenov نے اپنے  انٹرویو میں کہا   کہ 1971 ء میں سابقہ مشرقی پاکستان میں کوئی آزادی کی جنگ نہیں تھی یہ صرف ایک سائیکالوجیکل آپریشن تھا  ہم نے اچھا لکھنے اور اچھا بولنے والوں کو بھرتی کیا اور بڑے پیمانے پر لوگوں کی برین واشنگ کر کے بغاوت پر آمادہ کیا  اور بعد میں ایسے تمام لوگوں کو مروا دیا جس کی سب سے بڑی مثال شیخ مجیب تھا جب اس کا کام ختم ہو گیا اسے ختم کروا دیا گیا۔(یہ انٹرویو آج بھی یوٹیوب پر موجودہے)

سقوط ڈھاکہ کی ذمہ دار مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت بھی

  بدقسمتی سے مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت کی توجہ صرف اور صرف اقتدار کی جانب مبذول تھی جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں یہ احساس کمتری بڑھتا گیا کہ ان پر پہلے انگریز اور اب مغربی پاکستان نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے ۔

ایوب خان کے مارشل لا کو بھارت نے اپنے مفاد کے لیے بخوبی استعمال کیا اور بنگالیوں کے دل اور دماغ میں مغربی پاکستان کی جانب سے زہربھرنا شروع کردیا ۔  انیس سو ستر کے الیکشن نے رہی سہی کسر پوری کردی جس میں شیخ مجیب الرحمن نے واضح اکثریت حاصل کی جبکہ مشرقی پاکستان میں  ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کامیاب ٹہری ۔ جنرل یحییٰ خان اس وقت پاکستان کے سربراہ تھے  اور ملک میں مارشل لا نافذ  تھا  بجائے اس کے کہ اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کیا،جاتا جنرل یحییٰ خان نے  ملکی  تاریخ کی سنگین ترین غلطی کی  اور عوامی لیگ کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ اس بھیانک اور فاش غلطی نے  ملک کو دوٹکڑوں میں بانٹ دینے میں  کلیدی کردار  ادا کیا۔

بھارت تو پہلے ہی ایسے کسی موقع کی تاک میں تھا  اور اسی غلطی کو بنیاد بناکر بھارت  نے علیحدگی پسندوں کو  بھرپور شہ دیتے ہوئے  مکتی باہنی بنا ڈالی  اور گوریلا جنگ شروع کردی۔ یہی نہیں  بھارت نے مظلوم بنگالیوں کی مدد کابہانہ بناکر 3 دسمبر 1971کو مشرقی پاکستان پر ڈھائی لاکھ فوج کی مدد سے  اپنی پوری  قوت سے تین اطراف سے حملہ کر دیا جبکہ مشرقی پاکستان میں بھارت کی اندرونی کمک کے طور پر تین لاکھ مکتی باہنی کے گوریلے  بھی موجود تھے دوسری جانب نو مہینے سے موجود تھکی ہاری فوج تھی جسکو نہ صرف اپنوں کی بے وفائیوں کا ہی نہیں بلکہ دشمنوں کی سفاکیوں کا بھی سامنا تھا ۔

 اس کی تصدیق کرتے ہوئے 1971 میں جنرل مانک شاہ کے اسٹاف افسر بریگیڈئیر پندر سنگھ اپنی کتاب Soldiering with Dignity میں لکھتے تھے کہ 71 میں ہم مکتی باہنی اور بھارتی فوجیوں کو پاکستانی فوج کی وردیوں میں بنگلہ دیش داخل کرتے، وہ وہاں لوٹ مار کرتے اور پاکستانی فوج کا کردار بنگالیوں کی نظر میں مشکوک بناتے تھے۔ اس کام نے آگے چل کر ہمیں بہت فائدہ دیا۔

بھارتی آرمی چیف جنرل مانک شاہ سے پوچھا گیا کہ کیا پاک فوج نے بنا لڑے ہتھیار ڈال دیئے تو ان کا جواب تھا نہیں۔ وہ بہت بہادری سے لڑے مگر چونکہ وہ تعداد میں ہم سے بہت کم تھے اور ان کی فضائی قوت ختم ہو چکی تھی، یہی وجہ تھی کہ ان کی رسد اور کمک کے راستے بھی بند تھے اور وہ اپنے بیس یعنی مغربی پاکستان سے بہت دور تھے جس کی وجہ سے ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

ایک ایسی فوج جس کے پاس نہ کسی قسم کی رسد تھی نہ ہی کسی قسم کی ڈائریکشن اس کے باوجود اس نے بغیر لڑے ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔   پاکستان کے ہاتھوں انیس سو پینسٹھ میں منہ کی کھانے کے بعد بھارت نے اپنی عسکری عددی قوت کو بڑھانے کا فیصلہ کیا  جس کے لیے اس کے پاس نہ صرف روس بلکہ امریکہ کی جانب سے ہر قسم کی ملٹری امداد فراہم کی جارہی تھی   بطور خاص بھارتی فضائیہ  جس کے پاس  دنیا  کی اس وقت کی پانچویں بڑی طاقت کا اعزاز حاصل تھا  جس کے پاس ائیر  فلیٹ میں

MIG 21

Su7

HF24-7

Gnat MK1

Hunter

Canberra

Mystere 1VA شامل تھے ۔

 یہی نہیں بلکہ بھارت نے اپنے ائیر ڈیفینس کو بھی مضبوط اور مربوط بنالیا  تھا  بھارتی  ائیر نیٹ ورک   Early warning   اور Low Level Radars  پر مشتمل تھا جس کی وجہ سے  بھارتی فضائیہ کو  ہر لحاظ سے  برتری حاصل تھی۔ جبکہ دوسری جانب  پاکستان فضائیہ  پینسٹھ کی جنگ کے بعد سے ہی انتہائی مشکل حالات میں تھی  امریکہ جو ہمارا  بنیادی سورس آف سپلائی تھا اس نے پاکستان پر Embargo  نافذ کردیا تھا جبکہ نئے ائیر کرافٹ اور ہارڈ وئیر سپلائی بھی روک دی تھی۔  پاکستانی فضائیہ کے پاس دشمن کے فضائی علاقوں میں دور تک مداخلت کرنے والے طیارے موجود نہیں تھے۔ میراج 3 طیارے انتہائی قلیل اور قیمتی ہونے کی وجہ سے آزادی سے استعمال نہیں کئے جاسکتے تھے۔

واضح رہے کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فضائیہ میں  موجود مقامی علاقے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں پر مشتمل عملہ بھارتی فضائیہ کے ساتھ شامل ہوگیا تھا دوسری جانب پاکستان کی بدترین سیاسی کشمکش جاری تھی۔

پاکستان ائیرفورس اس قدر بحرانی کیفیت اور  ان نامساعد حالات مین بھی جی جان لڑاکر لڑی اور پاک فضائیہ  کے شاہینوں نے اس جنگ میں بھی بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں ۔

بھارتی ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل پی سی لال  نے اپنی کتاب’انڈیا پاک ایئر وار’ میں  لکھا ہے کہ ” صرف پاک فضائیہ نے1965 کی 22روزہ  جنگ میں بھارتی فضائیہ کے75 جہاز تباہ کئے جبکہ 1971 کی صرف13 روزہ جنگ میں بھی 75 جہاز تباہ کئے۔ ان میں سے19جہاز مشرقی محاذ پر تباہ کئے جو کہ ایک انتہائی قابلِ تعریف کارکردگی ہے”

ذرائع کے مطابق پا ک فضائیہ دشمن کے 141 جہازوں کو تباہ اور نقصان پہنچانے میں کامیاب رہی  تھی جس کا بریک ڈاون کچھ اس طرح بنتا  ہے

    Canberra   مصدقہ بارہ  غیر مصدقہ  چھ  جبکہ ایک کو نقصان پہنچایا جس کی کل تعداد انیس بنتی ہے ۔

SU7 مصدقہ تیس  غیر مصدقہ پانچ  جبکہ نو کو نقصان پہنچایا  جس کی کل تعداد چوالیس بنتی ہے۔

GNAT مصدقہ تین اور کل  تعداد بھی تین ہی بنتی ہے۔

Hunters کی تعداد 33 جس میں غیر مصدقہ ایک جبکہ نو کو نقصان پہنچایا  جس کی کل تعداد 43 بنتی ہے

MIG21 کی تعداد پانچ جبکہ  تین کو نقصان  پہنچایا  جس کی کل تعداد  آٹھ

HF24 کی تعداد پانچ  اور تباہ ہونے والوں کی تعداد بھی پانچ

Mystrere کی تعداد تین جبکہ تباہ ہونے والوں کی تعداد بھی تین  تھی۔

Aop AIRCraft  Alize MI4  ایک ایک تباہ کرنے میں کامیاب رہی تھی ۔جبکہ اندازے کے مطابق تیرہ کے قریب وہ جہاز تباہ کیے جن کی ٹائپ کا اندازہ نہیں کیا جاسکا۔

بھارت نے بھی اپنے SU7 اور Hunters کا بھاری نقصان تسلیم کیا تھا۔

 اب ذرا نظر ڈالتے ہیں پاک فضائیہ کے14 سکواڈرن پر

مشرقی پاکستان میں پاک فضائیہ کا  واحد سکواڈرن 14 سکواڈرن  تعینات تھا اس سکواڈرن میں سکواڈرن لیڈر دلاور، فلائیٹ لیفٹیننٹ شمس الحق اور فلائنگ آفیسر شمشاد جیسے مشاق پائلٹ شامل تھے۔ اس سکواڈرن کا سامنا   بھارتی فضائیہ کے 10 اسکواڈرن سےسامنا  تھا  اسکواڈرن 10 میں ,Mig21 ,Su7 GNAT اور  Huntersشامل تھے. لیکن جس بے جگری اور بہادری سے پاک فضائیہ کے اسکواڈرن نمبر 14 نے اپنے سے چار گنا دشمن کا مقابلہ کیا وہ فضائیہ  کی تاریخ میں مثال ہے ۔

سکواڈرن لیڈر دلاور، فلائیٹ لیفٹیننٹ شمس الحق اور فلائنگ آفیسر شمشاد  جیسے شاہینوں  پر  مشتمل اسکواڈرن 14نے  دشمن کو کا ری ضرب پہنچائی۔

پاکستان بھارت  کی فضائی جنگ کا باقاعدہ آغاز  3 دسمبرسے ہوا جہاں   بھارتی فضائیہ کے 10 سکواڈرن نے پاکستان کے واحد  سکواڈرن  اسکواڈرن 14   پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے۔ بھارتی فضائیہ کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ تین چار گھنٹوں میں وہ  نمبر14 سکواڈرن  کے تمام ایف 86طیاروں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائینگے  تاہم  ایک بار پھر اپنے ہی کئی جہاز تباہ کروا بیٹھے۔ اسکواڈرن 14  نے دشمن کے   SU7اور Hunters طیارےتباہ کیے بلکہ  MIG21 طیاروں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

اس فضائی معرکے میں پاک فضائیہ کے شاہینوں نے جگہ جگہ بہادری کی داستانیں رقم کیں لیکن چار دسمبر 1971 ء کا دن پاکستان فضائیہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

اس دن  ڈھاکہ میں  دو ایسی فضائی طاقتیں آمنے سامنے تھیں جن میں ایک کے پاس صرف جذبہ ایمانی اور وطن کی محبت تھی جبکہ دوسری جانب جدید طیاروں سے لیس  دشمن  مگرپاک فضائیہ کے مٹھی بھر جانبازوں  نے انتہائی دلیری  سے لڑتے ہوئے اپنے سے چار گنا بڑی طاقت کو منہ توڑ جواب دیا اور وطن  کا پرچم سربلند ہی  رکھا۔ اس دن بھارتی فضائیہ صرف ڈھاکہ میں 128 مشن اڑا سکی ۔

چار دسمبر کا دن  فلایٹ لیفٹیننٹ سعید افضل کے تذکرے کے بغیر ادھورا رہیگا

ستارہ جرأت اپنے نام کرنے والے پاک فضائیہ کے یہ مایہ ناز پائلٹ 7 جولائی 1948 ء کو اٹک کے ایک فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

فلائیٹ لیفٹیننٹ سعید افضل (شہید) 1966 ء میں پی اے ایف اکیڈمی رسالپور سے منسلک ہوگئے اور 30 جون 1968ء کو بحیثیت فائٹر پائلٹ گریجویٹ ہوئے۔ فائیٹر کنورژن کورس مکمل کرنے کے بعد نمبر 18 سکواڈرن میں تعینات ہوئے۔

پاک بھارت کشیدگی کے دوران سعید کو نمبر 14 سکواڈرن ڈھاکہ میں تعینات کیا گیاجہاں انہوں نے بہادری کی شاندار داستان رقم کی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

چار دسمبر انیس سو اکہتر کو F-86 جہازوں کی فارمیشن کے نمبر 2 ہونے کی حیثیت سے فلائیٹ لیفٹیننٹ سعید افضل چار بھارتی ہنٹر جہازوں سے اکیلے لڑے  اور انہوں نے  ایک طیارہ گرادیا ۔ اسی دوران  بھارتی فضائیہ کے  مزید چار ہنٹر  طیارے اس  جنگ میں شامل ہوگئے۔ اپنی  ہوا بازی کی  مشاقی مہارت اور جانبازی کے باعث فلائیٹ لیفٹیننٹ سعید افضل بھارت کو ڈھاکہ ائیر فیلڈ پر حملے سے باز رکھنے میں کام یاب رہے  اور اپنے سے بہتر طیاروں  کا  جوانمردی مقابلہ کرتے رہے ۔ مگر آخر کار وہ بھارتی  ہنٹر کے نشانے پر آگئے۔ ان کے آخری الفاظ یہ تھے، ’’میرا جہاز ہٹ ہوگیا ہے اور میں چھلانگ لگار ہا ہوں۔‘‘

فلائیٹ لیفٹیننٹ سعید افضل بحفاظت کودنے میں کامیاب ہوگئے لیکن بدقسمتی سے ریسکیو ہیلی کاپٹر کو صرف ان کا پیراشوٹ ہی مل سکا  اور تب سے انہیں گمشدہ “Missing in Action” قرار دیا گیا ہے۔ ان کی اس جرأت ، ثابت قدمی اور فرض شناسی کی بنا پر انہیں ستارہء جرأت سے نوازا گیا ۔

  فضا میں جاری یہ انتہائی شدید  معرکہ 8دسمبرتک جاری  رہا حتی کہ ایئر فیلڈ ناقابلِ مرمت ہو جانے کے باعث پاک فضائیہ کو اپنی سرگرمیاں روکنا پڑیں  لیکن پاک فضائیہ کی مشاقی اور مہارت کا عالم اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ   اس کے گیارہ  کے گیارہ F86طیارے مکمل  محفوظ رہے۔

یہاں بتاتی چلوں کہ  1965 میں پاک فضائیہ نے کل2,364 مشنز فلائی کئے جن کاaverage تقریباً ایک دن 107 مشنز بنتا ہے .جبکہ1971 میں کل3,027 اڑانیں بھریں جن کا ایک دن کا اوسط 201 پروازیں بنتا ہے۔

بادی النظر میں دیکھا جائے تو دسمبر1971 کی اس یکطرفہ جنگ میں پاک فضائیہ نے مصدقہ  طور پر بھارتی فضائیہ کے  104 جہازوں کو شدید نقصان پہنچایا ۔ اگر  پاکستان کی سیاسی قیادت شروعات سے ہی وسیع القلبی اور مفاہمت سے کام لیتی اور پینسٹھ کی جنگ کے بعد  اپنے اقتدار کے بجائے  پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتی تو شاید  پاکستان کو مشرقی پاکستان کایہ داغ نہ سہنا پڑتا۔

Sources:

History of The Pakistan AirForce 1947-1982,Flight of Falcons,The Betrayal of East Pakistan,  البدر

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *