راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راولپنڈی کے بعد ملتان ٹیسٹ میں پاکستان کا انگلینڈ کے خلاف ہار جانا، پاکستان کا ہوم گراؤنڈ پر مسلسل تین ٹیسٹ میں شکست سے دوچار ہونا، بے ہنگم سلیکشن، ناقص منصوبہ بندیاں، مینجمنٹ کی مضحکہ خیر توجیہات سب اپنی جگہ لیکن کپتان بابر اعظم کا وہ ایک بیان اپنی جگہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ خود پر تنقید کرنے والوں کو وہ جوابدہ نہیں ہیں۔ سب بھول بھی جائیں تو یہ بیان اکیلا خاصا معنی خیز ہے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کے دوران جب بابر اعظم سے بے در پے ایسے سوال کیے گئے کہ ان کی کپتانی پر تنقید ہورہی ہے اور یہ کہ کپتانی کا پریشر ان کی بیٹنگ کو بھی متاثر کررہا ہے تو شاید وہ ناراض ہوگئے۔
فرمانے لگے کہ میرا کام تنقید کرنے والوں کو جواب دینا نہیں ہے، بلکہ صرف پرفارم کرنا اور پاکستان کو جتوانا ہے۔ اس کوشش میں تو میں لگا ہوا ہوں۔ ہمارا بابر اعظم سے سوال یہ ہے کہ آپ تنقید کرنے والوں کو جوابدہ نہیں ہیں تو کس کو جوابدہ ہیں؟
آپ جس ملک کی نمائندگی کررہے ہیں اس کے عوام کو جواب نہیں دیں گے تو کس کو دیں گے؟ یہ عوام ہی ہے جو اسکور کرنے پر آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور کنگ کا خطاب دیتی ہے۔ قیادت آپ کرتے ہیں، دعائیں قوم کرتی ہے۔ کھیلتے آپ ہیں، پیسہ خرچ کرکے دیکھنے وہ آتی ہے۔
ٹیکس عوام دیتی ہے جس سے کرکٹ کو بھی گرانٹس ملتی ہے۔ جن اشتہاروں کے بل پہ ٹی وی رائٹس دیئے جاتے ہیں اور جن میں آ پ کام بھی کرتے ہیں، ان اشتہاروں کو عوام دیکھتی ہے اور ان برانڈز کو سپورٹ بھی عوام کرتی ہے۔
بین الاقوامی سوشل میڈیا پر پڑوسی اور دیگر ممالک کی آپ پر تنقید کا دفاع بھی عوام ہی کرتی ہے۔آپ سے محبت بھی عوام ہی کرتی ہے اور آپ کے اسکینڈلز پر پردہ بھی عوام ڈالتی ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ناکامی پر یہی عوام زمبابر کے نعرے لگانے لگی؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔
تاہم آپ کچھ بھی سمجھیں کچھ سوالات کے جوابات آپ پر واجب ہیں، دینا نہ دینا آپ کی مرضی۔اگلی چند سطروں میں ہم آ پ کو یعنی بابر کو ہی مخاطب کررہے ہیں۔
کسی کوآپ سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں لیکن پاکستان کی ناکامی کسی سے ہضم نہیں ہوتی۔ یہ بات اب چند حلقوں سے نکل کے زبان زد عام ہورہی ہے کہ آپ کی پرفارمنس، اوسط اور آپ کی عالیشان بیٹنگ رینکنگ پاکستان کو جتوانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔
کوئی بھی بیٹر نہ ہر اننگز میں بڑا اسکور کرتا ہے اور نہ جلدی آؤٹ ہونا چاہتا ہے لیکن آپ صرف اسی اننگز میں مطلوبہ اسکو ر نہیں کرپاتے جب پاکستان کوئی ٹائٹل یا سیریز جیتنے یا سیریز برابر کرنے کی پوزیشن میں ہو۔
دوٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور ایک ایشیا کپ ہم اسی وجہ سے ہارے۔ اب ٹیسٹ میں بھی یہی سلسلہ ہے۔ایک دن آ پ اچھی اننگز کھیلتے کھیلتے اکثر اس وقت آؤٹ ہوجاتے ہیں جب اگلی صبح کھیل شروع ہوتا ہے۔
جب برتری لینا یا ہدف عبور کرنا عین ممکن ہوتا ہے تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آپ لازمی پرفارمنگ سچوئیشن کا پریشر نہیں لے پاتے یا کوئی اور وجہ ہے؟ یہ سوال پوچھنا عوام کا حق ہے۔ یہ جواب بہت پرانا ہوگیا کہ ہر اننگز میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
Babar Azam responds to the question of him and Mohammad Rizwan focusing on T20 cricket only and not playing Test cricket 😅 #PAKvENG pic.twitter.com/tJtJyN2YMX
— Farid Khan (@_FaridKhan) December 12, 2022
اس سوال کا جواب بھی آپ کو دینا پڑے گا کہ آپ کی کپتانی کے بعد سے نہ صر ف آپ بلکہ دیگر کھلاڑیوں نے بھی انفرادی ریکارڈز پر توجہ دینی شروع کردی ہے اور میچ کی صورت حال کو نہیں دیکھا جاتا۔ جس طرح آپ اور آپ کے دست راست محمد رضوان ٹی ٹوئنٹی کے پاورپلے پر قبضہ کرکے بیٹھے ہیں، وہ اسی بات کی عکاس ہے کہ میچ جیتیں یا ہاریں، اسکور ہم ہی کریں۔
ہماری رینکنگز برقرار رہیں چاہے میچ میں مطلوبہ رن ریٹ حاصل ہو یا نہ ہو۔ یہی چیز اب ٹیسٹ میچز میں نظر آرہی ہے کہ نئے بیٹسمین ٹیل اینڈرز کو اسٹرائیک سے بچانے کے بجائے اس بات کو فوقیت دے رہے ہیں کہ وہ ناٹ آؤٹ رہیں اور ان کی اوسط اچھی نظر آئے۔ اس انفرادیت پسندی کے کلچر کو متعارف کروانے کی ذمہ داری آپ نہیں لیں گے تو کون لے گا؟
اس بے ہنگم سلیکشن کی ذمہ داری بھی آپ ہی کو لینی پڑے گی جہاں آ پ اسپیشلسٹس کے بجائے یاری دوستی نبھاتے ہوئے تین آل راؤنڈرز ٹیسٹ میں کھلا دیتے ہیں۔ ان آل راؤنڈرز سے بولنگ کروانا آپ بھول جاتے ہیں اور بیٹنگ میں وہ خود کچھ نہیں کرتے۔
ڈومیسٹک میں 13وکٹیں لینے والے اسپنرکو آپ پہلے ڈیبو کروادیتے ہیں اور43وکٹیں لینے والے کو دوسرے ٹیسٹ تک انتظار کرواتے ہیں۔ میر حمزہ کو آپ یہ کہہ کر نہیں سلیکٹ کرواتے کہ اس کے پاس اسپیڈ نہیں ہے، اس کی جگہ محمد علی کو اسپیڈ مرچنٹ سمجھ کے کھلاتے ہیں اور اس پیسر یعنی محمد عمر کو بھی پسند نہیں کرتے جس کی اسپیڈ سے آپ خود بیٹنگ میں پریشان ہوئے تھے۔
31وکٹیں لینے والے فاسٹ بولنگ آل راؤنڈر عامر جما ل کی جگہ اپنے دوست یعنی محض 8وکٹیں لینے والے فہیم اشرف کو کھلا کے بھی آپ بے قصور ہی رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے آصف علی اور حسن علی جیسے یاروں کو مسلسل بیک کرکے بھی آپ کو زیادتی کا احساس نہیں ہوتا اور الٹا آپ ان کی حمایت کرتے ہیں۔یہ یاریاں دوستیاں اب ایکسپوز تو ہی چکی ہیں لیکن چلتی کب تک رہیں گی، سوال تو یہ ہے۔
بحیثیت کپتان آپ کو فیلڈ پر یہ یاد نہیں رہتا کہ آپ کتنے بولنگ آپشنز کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آپ کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ کون سی جگہ ڈی آر ایس استعمال کرنا چاہئے اور کہاں نہیں۔ آ پ کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کون سے بولر کے لئے کون سی فیلڈ لینی ہے؟
آپ کو مخالف بیٹر کی صلاحیت یا موڈ کا بھی اندازہ نہیں ہوتا اور آپ اس کو اس کی مرضی کا بولر اور مرضی کی فیلڈ دیتے رہتے ہیں۔بولرز کی غلطیوں پرا ٓپ اس کو سمجھانے یا حوصلہ افزائی کرنے بھی نہیں جاتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ امتحان کی طرح کچھ جواب رٹ کے آتے ہیں اور سوال چاہے کچھ بھی ہوں، آپ جواب وہی دیتے ہیں۔
یہی آپ کی پلاننگ ہے اور آپ کے کوچز کی بھی کہ خبردار کبھی صورت حال کے حساب سے حکمت عملی تبدیل نہ کرنا، مخالف ٹیم فائدہ اٹھاتی ہے تو اٹھاتی رہے۔ کیا یہ بات درست نہیں ہے، سوال یہ بھی ہے۔
یہ اور بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کے لئے بابر اعظم عوام کو جوابدہ ہیں۔
پڑھنے والے یہ ضرور کہیں گے کہ ہر غلطی اور کمزوری کو ہم بابر کے کھاتے میں کیوں ڈال رہے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ چئیر مین پی سی بی رمیز راجہ نے بابر کو با اختیار کپتان کہا ہے۔
مذکورہ بالا تمام عوامل وہ ہیں جن میں بابر کی مداخلت یا مرضی کی باوثوق ذرائع سے تصدیق ہوچکی ہے۔ یہ جو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے۔رمیز نے بے شک خود پر سے ذمہ داری ہٹانے کے لئے بابر کو با اختیار بنایا ہو
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب بابر صرف رمیز راجہ کو جوابدہ ہیں۔ وہ عوام اور ناقدین کو بھی جوابدہ ہیں اور اس حقیقت سے بھاگنا ان کے لئے بہت زیادہ دیرتک ممکن نہیں ہے۔
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
Error: Could not authenticate you.
Your email address will not be published. Required fields are marked *