راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
سال 2022گزر گیا اور نئے سال میں پاکستان کرکٹ کے حوالے سے بھی کافی تبدیلیوں کی نوید دے گیا۔ چئیرمین رمیز راجہ خاصے بھنبھناتے ہوئے رخصت ہوئے اور نجم سیٹھی کی واپسی ہوئی۔ 2019کے پی سی بی آئین اور ریجنل و مقامی ایسوسی ایشنز کو بھی بحال کردیا گیا۔ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے از سر نو آغاز کے بھی اشارے دے دیے گئے ہیں۔
شاہد آفریدی کی قیادت میں عبوری سلیکشن کمیٹی آئی اور سرفراز احمد اور میر حمزہ کی پاکستان کرکٹ ٹیم میں واپسی ہوئی۔محمد رضوا ن تقریباً تین سال کے بعد بغیر ان فٹ ہوئے بنچ کیے گئے اور اس کے ساتھ ہی سرفراز کے ناقدین بھی ایک بار پھر منہ ہاتھ دھو کے نکل آئے اور نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں ان کی دو نصف سنچریوں کے باوجود ان کی وکٹ کیپنگ پر تنقید کرتے رہے۔
سرفراز کے آنے سے پاکستان کی فتوحات تو فوری طور پر لوٹ کے نہ آئیں لیکن کم از کم اتنا ضرور ہوا کہ ہوم گراؤنڈ پر مسلسل چار ٹیسٹ ہارنے کے سلسلے کو ذرا سا بریک لگا اور پہلا ٹیسٹ ڈرا ہوگیا جس کو کپتان بابر اعظم نے ایک بے مقصد ڈیکلئریشن کے ذریعے زبردستی اسپورٹنگ بنانے کی کوشش بھی کی۔
خیر آن فیلڈ ایکشن پر بات انشاء اللہ سیریز کے اختتام پر کریں گے۔ فی الحال تو کراچی کے اس اسٹیڈیم میں مسلسل تیسرا ٹیسٹ جاری ہے جس کا نام کمرشل وجوہا ت کی بنا پر پانچ سال کے لئے ایک بنک کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ جس طرح کپڑے بدل لینے سے اندر کا انسان نہیں بدل جاتا، اسی طرح اسٹیڈیم کا نام بدل دینے سے اس کی خصوصیات اور سہولیات بھی نہیں بدلیں گی۔
ویسے تو مذکورہ بنک نے اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش اور ضروری مرمت کا ذمہ بھی لیا ہے لیکن ایسا کس رفتار سے اور کس حد تک ہوگا، اس کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ معاہدہ رمیز راجہ کے عہد میں ضرور ہوا تھا لیکن پی سی بی ایک قومی ادارہ ہے اور بنک بھی قومی بنک ہے تو امید یہی ہے کہ معاہدہ دونوں فریقین میں قیادت کی تبدیلی کے باوجود اپنی مدت پوری کرلے گا۔ تاہم ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں کراچی کے شائقین کو اسٹیڈیم میں واپس لانے میں کامیاب ہوگا یا نہیں؟
قومی اور بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ کے دوران مسلسل کراچی کا خالی اسٹیڈیم دیکھ دیکھ کے تنقید ہورہی ہے۔ نام نہاد معروف کمنٹیٹر بازید خان بھی کراچی اور اس کے لوگوں کے خلاف اپنے بغض کو چھپا نہیں پارہے اور زمینی حقائق جانے بغیر کراچی کے عوام کو کمنٹری کے دوران طعنے دے رہے ہیں کہ وہ ٹی وی پر میچ دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور گراؤنڈ پہ نہیں آتے۔
انٹر نیٹ پر دوسرے شہروں کے شائقین بھی برہمی کا اظہار کررہے ہیں کہ میچز کراچی سے ایسے علاقوں میں شفٹ کیے جائیں جہاں کے لوگ براہ راست کرکٹ دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔ایسے میں ہم نے سوچا کہ یہ کالم ان تمام حقائق اور وجوہات کو ظاہر کرنے کے کام میں لایا جائے جن کی بنا ء پر کراچی کے عوام ٹیسٹ کرکٹ سے دور ہیں۔شاید بازید خان جیسے کافی لوگوں کی تسلی اس سے ہوجائے۔
کراچی شہرسے جن کرکٹرز نے قومی ٹیم کی نمائندگی کی ہے ان میں کچھ عظیم نام بھی آتے ہیں۔ محمد برادران، ظہیر عباس، جاوید میانداد، آصف اقبال، یونس خان، اقبال قاسم اور شاہد آفریدی وغیرہ کراچی سے کرکٹ کے دیرینہ رشتے کو ثابت کرنے کے سلسلے میں بہت آگے تک جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند سال کے دوران خصوصاًٹیسٹ کرکٹ میں کراچی کے کرکٹرز سے سلیکشن کے معاملے میں مسلسل زیادتی کے باعث یہاں کے مقامی کھلاڑیوں اور شائقین کا دل ویسے ہی کھٹا ہوگیا ہے۔
گزشتہ عشرے میں تابش خان اور فواد عالم جیسے کھلاڑیوں کو قومی کرکٹ میں ٹاپ کرنے کے باوجود نیشنل ٹیم سے دور رکھا گیا اور اس کے بعد سابق کپتان سرفراز احمد کو بھی ریزرو بنچ تک محدود کردیا گیا۔پی ایس ایل یا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں جوش و خروش دکھانے کے باوجودٹیسٹ کرکٹ سے کراچی کی ناراضگی کی ایک اہم وجہ یہ بھی بن گئی۔
چلیں نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں کراچی کے چار کرکٹرز شامل تھے اور ایسا بہت عرصے بعد ہوا تھا لیکن پھر بھی اس سے دیگر وجوہات دور نہیں ہوتیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عمومی طور پر کرکٹ کا ہی جنون ہمیں ملک میں ویسے دکھائی نہیں دیتا جیسا ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا۔
پی ایس ایل یا کسی عالمی کپ کے زمانے میں ضرور لوگ اپنی روز مرہ مصروفیات کے دوران ایک دو جملے میچ کے بارے میں بول لیتے ہیں لیکن کسی بھی دو فریقی سیریز چاہے وہ ٹی ٹوئنٹی، ون ڈے یا ٹیسٹ کسی بھی فارمیٹ کی ہو، عوام الناس اس کے لئے دیوانے ہوجائیں، دفاتر میں کمنٹری سنی جارہی ہو یا لائیو اسکور انٹرنیٹ پر فالو کیے جارہے ہوں، نائٹ میچز کی صورت میں سڑکیں اور شادی ہال ویران ہوجائیں یا محلے کے بے فکرے کہیں جمع ہو کر شرطیں لگا رہے ہوں، ایسا اب نہیں ہوتا۔
لوگوں کی مصروفیات اور شوق کچھ اور ہوگئے ہیں تو کراچی جیسے بڑے شہر میں آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ اسٹیڈیم بھر کے لوگ ٹیسٹ دیکھنے آئیں گے؟
کراچی کا معاملہ ویسے بھی پاکستان کے دوسرے شہروں سے الگ ہے۔لاہور، راولپنڈی، ملتان اور پشاور میں ایک ایک دو دوگھنٹے کے فاصلے پر دیگر چھوٹے بڑے شہر واقع ہیں جہاں سے شائقین آکے اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں۔
مثلاًراولپنڈی میں ہی جہلم، ایبٹ آباد، مری، کھاریاں، واہ کینٹ اور ٹیکسلا سے لوگوں کا میچ دیکھنے آنا کوئی انہونی بات نہیں۔ اسی طرح نوشہرہ اور مردان جیسے شہروں سے لوگ پشاور کے علاوہ راولپنڈی کا بھی بآسانی رخ کرسکتے ہیں۔
لاہور میں قصور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، شیخوپورہ وغیرہ سے کتنے لوگ قذافی اسٹیڈیم میں آتے ہیں یہ حساب آج تک کسی نے نہیں لگایا ہوگا۔ کراچی سے نزدیک ترین بڑا شہر صرف حیدر آباد ہی ہے اور وہاں سے یا سندھ میں کہیں اور سے شائقین کراچی آکے میچ کیوں نہیں دیکھتے۔ یہ بھی آج ہم بتا ہی دیتے ہیں۔
ٹریفک مسائل کے باعث آس پاس کے شہر تو کیا، اسٹیڈیم کے قریب سے بھی وقت پر پہنچنا لوگوں کے لئے تقریباًناممکن ہے۔آج کل تو اسٹیڈیم کو آنے والی یونیورسٹی روڈ بھی ترقیاتی کاموں کے باعث جزوی بندش سے گزر رہی ہے۔
اس کے بعد کسی بھی سواری کا اسٹیڈیم کے پاس دو کلومیٹر کے احاطے میں داخلہ ممنوع ہے۔اسی وجہ سے گاڑی بہت دور پارک کرکے یا کسی دوسری سواری سے آکے لوگوں کو طویل فاصلہ پیدل چلنا پڑتا ہے۔اس مشقت کے بعد وہ گیٹ پر لائن لگاتے ہیں اور طویل انتظار کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ کھانے پینے کی اشیاء باہر سے لانا منع ہے تو پیدل مار چ اور انتظار ان کو بھوکا پیاسا رہ کے کرنا پڑتا ہے۔اسٹیڈیم کے اندر دھول سے اٹے اسٹینڈز ان کا استقبال کرتے ہیں۔کھانے پینے کے لئے غیر معیاری اشیاء مہنگے داموں ملتی ہیں اور واش روم کی سہولت پانی کے بغیر ہوتی ہے۔ بہت عرصے تک اسٹینڈز کی چھت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنا پڑا۔
ایسی گت بنوانے کے لئے لوگ ٹی ٹوئنٹی کے تین گھنٹے گزارنا تو برداشت کرلیتے ہیں لیکن ٹیسٹ یا ون ڈے میں پورا دن نکالنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ ہوم گراؤنڈ پر پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بھی قابل ذکر نہ ہو۔
انگلینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ کے لئے سارے ٹکٹس آن لائن فروخت ہوگئے تھے لیکن گیٹ پر ٹکٹ ہولڈرز کے اسکرین شاٹ یا پرنٹ آؤٹس تسلیم نہیں کیے گئے۔ ان کو میلوں دور کاؤنٹرز کی طرف بار بار ہنکایا گیا اور کبھی ٹکٹس کے مستند پرنٹ آؤٹ نکلوانے کو کہا گیا اور کبھی نئے ٹکٹس خریدنے کو۔ اسٹاف کو خود اس معاملے میں کوئی واضح معلومات نہیں تھیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدھے سے زیادہ دن اسی اٹھا پٹخ میں گزر گیا اور کراچی کے شائقین کی اکثریت بغیر میچ دیکھے اور آئندہ نہ آنے کا ارداہ کرکے گھر لوٹ گئی۔
قصہ مختصر، وی آئی پی اسٹینڈز اور مفت پاسز کے علاوہ کم از کم کراچی میں میچ دیکھنا عوام کے بس کی بات نہیں۔ ممکن ہے کہ سہولیات کی بہتری اور آن فیلڈ ایکشن میں پاکستان کی بہتر کارکردگی کے باعث یہ روایت کچھ تبدیل ہو لیکن اس غلط فہمی کو بھی ہم دور کردیں کہ کراچی دوسرے شہروں کا حق مار کے میچ کروارہا ہے۔
یہ ایک مجبوری ہے کہ راولپنڈی سیاسی عدم استحکام اور لاہور اور ملتان خراب موسم کے باعث کرکٹ سے محروم ہیں۔پشاور اور کوئٹہ میں سیکورٹی خدشات کے باعث کرکٹ نہیں ہوتی اور دیگر شہروں میں آئی سی سی کی شرط پورا کرنے کے لئے فائیو اسٹار ہوٹلز نہیں ہیں۔
اس لئے کراچی عیاشی نہیں بلکہ ہوم گراؤنڈ پر کرکٹ کی ذمہ داری کے بوجھ کے طور پر میزبانی کیے چلا جارہا ہے جس میں مستقل وی آئی وی موومنٹ اور بند سڑکوں کا سامنا کرکے عوام بھی اپنے حصے کی قربانی دے رہے ہیں۔ ایسے میں کراچی کو بھی باقی ملک کی تعریف اور سپورٹ کی ضرورت ہے، بازید خان جیسے لوگوں کے طعنوں کی نہیں۔
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
Error: Could not authenticate you.
Your email address will not be published. Required fields are marked *