FlourCrisis 720x454

ایک زرعی ملک میں ایک تھیلے آٹے کی قیمت انسانی زندگی ہے

55 views

یہ ایک زرعی ملک کا حال ہے جہاں کی عوام ایک تھیلے آٹے کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں دھکے کھانے پر مجبور ہے ۔ کیسی بدقسمتی ہے یہ اس ملک کی جو دنیا کا ساتواں بڑا زرعی ملک کہلاتا ہے وہاں آٹے کے ایک تھیلےکا حصول جان کی قیمت ہے ۔

فہمیدہ یوسفی

اس وقت ملک میں مہنگائی کا جو سونامی ہے وہ تو کسی صورت تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔ بجلی ، گیس کی لوڈشیڈنگ ، پٹرول کی قیمتیں اور روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کے بس سے باہر ہیں ۔ اب رہی سہی کسر آٹے کے بحران نے پیدا کردی ہے ۔

قطاریں لگ رہی ہیں، دھکم پیل ہورہی ہے ، بھگدڑ مچ رہی ہے  لوگ زخمی ہورہے ہیں ،مررہے ہیں اور کیوں ؟ کیونکہ آٹے کے ایک تھیلے کا حصول بھی اب عوام کے لیے کسی چیلینج سے کم نہیں ہے۔

لوگ گلے میں سوکھی روٹیاں ڈال کر اپنے اپنے صوبوں کی حکومتوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ کہیں شدید سردی میں پردہ دار عورتیں سڑکوں پر بیٹھ کر حکومت وقت سے آٹے کا سوال کررہی ہیں ۔ کہیں سستے آٹے کے ٹرک لٹ رہے ہیں تو کہیں افراتفری اور ان سب میں پس کون رہا ہے صرف غریب عوام ۔

آٹے کی قیمتوں نے نئے ریکارڈ قائم کردیےہیں ، آٹے کا تھیلا نہ ہوا ڈالر ہوگیا جو بلیک مارکیٹ میں بھی نہیں مل رہا ہے ۔

کیسی بدنصیبی ہے اب سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی ناممکن ہوگیا ہے ۔غریب عوام کے گھروں کے چولہے ویسے ہی ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں ۔

 ا ب آٹے کے تھیلے کی خاطر لوگ دربدر دھکے کھاتے پھررہے ہیں۔ لیکن یہاں پرواہ کس کو ہے پاکستان کے وزیراعظم جو اپنے کپڑے تک بیچ کر عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کررہے تھے اب خاموشی سے فلائٹ پکڑ جنیوا یاترا نکل پڑے ہیں ۔

آخر بڑے بھائی کی طبیعت وغیرہ بھی جاننی ہے اور ان کو بتانا ہے کہ پاکستان میں عوام آپ کو یاد کرکر کے تڑپ ٹرپ کر رورہی ہے ۔

یہ الگ بات ہے کہ اس وقت عوام اپنے نصیب کو روتے پھرر ہے ہیں  خالی پیٹ دھکے کھاتے پھررہے ہیں ۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر سستا آٹاغائب ہے ۔ یومیہ  اجرت پر کام کرنے والے سوال کررہے ہیں وہ اپنی دیہاڑی دیکھیں یا پھر سار دن سستے آٹے کے لیے قطار میں لگ کر ذلیل ہوتے رہیں ۔

یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلی کرام چپ سادھ کر تماشہ دیکھنے میں مصروف ہیں یا پھر ایکدوسرے پر الزام تراشی کرنے میں مصروف ہیں ۔

نہ ہی کوئی ذمہ داری نظر آرہی ہے نہ ہی کوئی ریاستی مشینری کام کرتی نظر آرہی ہے ۔ غریب آدمی کو اپنے بچوں کو روٹی کھلانا ہی عذاب بن کر رہ گیا ہے ۔

آٹے کی قیمت 160 روپے فی کلو تک جاپہنچی ہے ، مسلسل قیمتوں میں اضافے کی وجہ وہ سرمایہ دار مافیا ہے جو کسی کے قابو میں نہیں ہے۔

جبکہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام نے بھی بیلک میلنگ اور ضلعی انتظامی مشینری کی کرپشن میں اضافہ ہی کیا ہے کمی نہیں کی ہے۔

کس قدر ستم طریفی ہے یہ کہ ایک  زرعی ملک کے شہری آٹے کے لیے ترس رہے ہیں ۔ اس بحران کا ذمہ دار کون ہے کیا  فلور ملز ہیں ‘یا  پھر محکمہ خوراک  ہےیا  پھر آٹے کے تاجرہیں؟ لیکن کیا وفاق اور صوبائی حکومتیں آٹا بحران کے ذمہ داروں تک پہنچ سکتی ہے  ۔

سوال یہ ہے کہ  آٹا بحران پر قابو پانے کے لیے  فوری اور موثر اقدامات کب کیے جائینگے ۔ آٹے کی فراہمی نہ صرف بحال کرنا ہوگی بلکہ آٹے کے  نرخوں کو قابو میں رکھنا بھی صوبائی حکومتوں کے لیے بہت بڑا ٹاسک ہے ۔

سستے آٹے کے حصول میں ہجوم کی بھگدڑ میں چھ بچوں کے مزدور باپ کی آٹے کے تھیلے کے ساتھ سڑک  پر پڑی لاش یہ سوال کررہی ہے کیا  اس ملک میں ایک تھیلے آٹے کی قیمت ایک زرعی ملک میں ایک انسانی جان ہے۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *