راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
اگر آپ ہوم گراؤنڈ پر مسلسل دو ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد، جس میں ایک تین صفر کا وائٹ واش بھی شامل ہو، تیسری سیریز ڈرا کر لیں تو اسے مثبت سمت میں ایک قدم ہی کہا جائے گا۔کچھ احباب کا خیال ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ کی ہوم سیریز ہمیں جیتنی چاہئے تھی، کچھ کا کہنا ہے کہ دوسرا ٹیسٹ ہارنے کی پوزیشن میں آنے کے بعد ڈرا کرلینا بھی مناسب ہی ہے۔
بہرطور اپنی اپنی رائے ہے جو مختلف موازنوں کے بعد قائم ہوتی ہے۔موازنہ آپ اپنی ٹیم کی حالیہ فارم سے کرتے ہیں یا بین الاقوامی کرکٹ کے تقاضوں سے، اس کا انحصار شاید ہماری انفرادی مرضی پرہی ہوتا ہے۔
خیر سوال یہ ہے کہ شکست سے ڈرا کی طرف پیش رفت کیا اس تبدیلی کا اثر ہے جو پی سی بی کی ٹاپ مینجمنٹ میں چئیر مین کی سیٹ اورسلیکشن کمیٹی کی شکل میں ہوئی ہے؟۔ شاید یہ کہنا قبل از وقت ہوگا اور اس فیصلے پر پہنچنے سے پہلے کافی سنگ ہائے میل ٹیم کو طے کرنے ہوں گے۔
تاہم ایک تبدیلی ضرور ایسی ہے جسے ہم اس مثبت رزلٹ کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں اور وہ ہے سرفراز احمد کی ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی اور چار اننگز میں تین نصف سنچریوں اور ایک سنچری کی مدد سے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ!
اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت دینے اور چھیننے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور سرفراز کی کامیاب واپسی و عزت افزائی ان لوگوں کے لئے ایک طمانچہ ہے جوان کے کیرئیر کو ختم قرار دے رہے تھے۔
کپتانی اور ٹیم میں جگہ کھونے کے بعدسرفراز کا خاموشی سے محنت کرتے رہنا اور مخالفین کے بارے میں ایک لفظ نہ بولنا بھی ان تمام لوگوں کے لئے ایک مثال ہے جو اپنی سیٹ یا پوزیشن کھونے کے بعد مسلسل سوشل میڈیا پر بلبلاتے رہتے ہیں اور بین الاقوامی حلقوں میں بھی شور مچانے اور ملک کو بدنام کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
سرفراز کی واپسی سے مڈل آرڈر میں ان قیمتی رنز کی کمی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے جوہار اور جیت کے درمیان کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
دوسر ی جانب ان کی موجودگی سے جونئیر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی بھرپور طریقے سے ہوسکتی ہے
سرفراز کی ساتھی کھلاڑیوں میں مقبولیت کی عکاسی ڈریسنگ روم کی اس ویڈیو سے کی جاسکتی ہے جہاں ان کی سنچری کی وقت پوری ٹیم جذباتی نظر آرہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بحث کے دوران پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ محمد رضوان کے اسکور کرنے پر لوگ اس طرح جذباتی نہیں ہوتے تو ہم نے کہا کہ شاید ورلڈ ٹائٹل ونر کپتان کا یہ اعزاز اور محبت ہمیشہ اسے ممتاز کرنے کے لئے کافی ہے۔
اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ رضوان کی پرفارمنس کی کوئی اہمیت نہیں یا ان کو کسی کی سپورٹ حاصل نہیں۔ ماضی قریب میں رضوان کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اب بھی سرفراز پر پریشر رہے گا کہ ذرا سی چوک ہونے پر رضوان اپنی جگہ واپس حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ صحت مند مقابلہ چلتا رہنا چاہئے اور اس دوران سرفراز کو اپنی وکٹ کیپنگ پر اور زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی وہ شعبہ ہے جہاں ان پر تنقید بلا جواز نہیں ہے۔ امید ہے کہ آنے والے میچز میں ہم ان سے فیصلہ کن غلطیوں کو دور ہی دیکھیں گے۔
سرفراز کے علاوہ بابر اعظم، امام الحق اور سلمان علی آغا نے اچھے اسکور کیے لیکن عبداللہ شفیق اور شان مسعود نے مایوس کیا۔ عبداللہ شفیق انگلینڈٖ کے خلاف راولپنڈی میں سنچری بنانے کے بعد اب نو مسلسل اننگز میں فیل ہوچکے ہیں جبکہ شان مسعود نے آخر بار پچاس سے اوپر اسکور 18اننگز قبل بنایا تھا۔
ڈومیسٹک کی فارم کو انٹرنیشنل کرکٹ میں نہ دہرا پانا اب شان کا دیرینہ مسئلہ بن گیا ہے۔ٹی ٹوئنٹی میں چند اچھے اسکورز کے باعث غالباً انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی موقع دیا گیا ہے لیکن اسی ٹیم کے خلاف حالیہ فارم پر ان کو نائب کپتان بنا دینا معنی خیز ہے
شاداب خان اس سیریز کے لئے دستیاب نہیں لیکن امام الحق، فخر زمان اور محمد رضوان سمیت چند کھلاڑی ایسے ہیں جو مستقبل میں بابر اعظم کے ساتھ کپتانی کا بوجھ بانٹ سکتے ہیں اور فٹنس کی صورت میں آٹومیٹک سلیکشن بھی ہیں۔
شان ون ڈے میں پرفارمنس سے جگہ بناتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن نائب کپتان بنا کے زبردستی کا کشن دینا مناسب نہیں لگتا۔ اس سے لابی ازم کے تاثر کو ہوا ملتی ہے کہ صرف انگریزی اچھی بولنے والے کو کپتانی کی دوڑ میں شامل کروادیا گیا۔
ادھر نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں سعود شکیل کی ضرورت سے زیادہ سست بیٹنگ بھی موضوع بحث بنی رہی۔ حتیٰ کہ دوسرے ٹیسٹ میں جیت کے بجائے ڈرا پر اکتفا کرنے کا ذمہ داربھی سعود کی آخری دن دوسرے سیشن میں انتہائی سست بیٹنگ کو قرار دیا جارہا ہے۔
سعود کا نیچرل گیم ایسا نہیں ہے، ایسے میں وہ کس حکمت عملی پر عمل کررہے تھے، یہ شاید ڈریسنگ روم کے اندر کی بات ہے۔ نیچرل گیم کو کٹ ڈاؤن کرنے پر ہم پہلے ہی فخر زمان کی اصلی شکل کھو چکے ہیں اور شاید کہیں حیدر علی کو بھی گم کرچکے ہیں، ایسے میں بلا وجہ کی کوچنگ اور حکمت عملی ایک اور نوجوان کے کیرئیر پہ اثر انداز ہو، یہ بہت بدقسمتی کی بات ہوگی۔
اس سیزن کے دوران بولنگ میں ہم نے بے جان وکٹوں کے باعث فاسٹ بولرز محمد علی اور وسیم جونئیر کے ڈیبو خراب کروائے اورفہیم اشرف، میر حمزہ اور حسن علی کے کھاتے میں ناکام کم بیکس لکھوا دیئے گئے
صرف نسیم شاہ نے فاسٹ بولرز میں بہتر بولنگ کی لیکن وہ اور سیزن کے پہلے ٹیسٹ میں ان فٹ ہونے والے حارث رؤف وائٹ بال کرکٹ میں ہمارا اثاثہ ہیں یا تمام فارمیٹس میں، یہ سلیکٹرز کو بہت جلد طے کرنا ہوگا۔ یہی فیصلہ شاہین آفریدی کے سلسلے میں بھی اہم ہوگا کیونکہ جلد یا بدیر ان کو ٹیم میں واپس آنا ہی ہے۔
دوسری جانب اسپن بولنگ کے شعبے میں جہاں زاہد محمود اور نعمان علی متاثر نہیں کرسکے وہاں نئے مسٹری اسپنر ابرار احمد سے ایک اننگز میں ستر ستر اوورز کروا کے ان کی ساری مسٹری کو ایکسپوز کردیا گیا، جس کا بر ملا اظہار چیف سلیکٹر شاہد آفریدی نے پریس کانفرنس میں کیا۔
ظاہر ہے کہ مسٹری اسپنر کا اثاثہ ہی اس کی تکنیک ہے جس کو غیر ملکی تجزیہ کاروں سے چھپائے رکھنا اور صرف بروقت استعمال کرنا کپتان اور مینجمنٹ کی ذمہ داری ہے جس سے وہ بالکل عاری نظر آئے۔
کپتان کو ابھی لوگ بہت کچھ سکھانے کے موڈ میں نظر آتے ہیں مگر شاید اس کوچنگ اسٹاف کو اب فارغ ہوجانا چاہئے جہاں ہیڈ کوچ صرف قدرت کے نظام اور اللہ توکل پر بیٹھا ہو، بیٹنگ کوچ بیٹرز کی کارکردگی کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھتا ہو اور مہنگا بولنگ کوچ فاسٹ بولرز کی پرفارمنس کو غیر معیاری سمجھنے سے ہی انکار کردے۔ شاید اب ٹیم کے تکنیکی نظام کو دعا سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے جو اس کو غیر ملکی ہیڈ کوچ ہی فراہم کرسکتا ہے۔
چلتے چلتے ایک بات امپائرنگ کے بارے میں بھی جہاں مقامی امپائرز بشمول عالمی شہرت یافتہ علیم ڈار ہمیں انتہائی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے اور پورے سیزن میں ڈی آر ایس پر ان کو کئی فیصلے واپس کرنا پڑے
عام طور پر امپائرنگ کی شکایت مہمان ٹیمیں کرتی ہیں لیکن یہاں معاملہ الٹا رہا اور پاکستانی ٹیم زیادہ تر غلط فیصلوں کے سامنے آئی۔ امپائرنگ کا مسئلہ صرف آن فیلڈ امپائرز تک محدود نہیں رہا بلکہ ٹی وی امپائرز نے بھی کوشش کی کہ مہمان ٹیم کو کوئی شکایت نہ ہو اور اسی لئے شک کا فائدہ بیٹسمین کو نہ دینے کے علاوہ کبھی کبھی واضح غلط فیصلے بھی کیے گئے جس میں نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سرفراز کا اسٹمپ آؤٹ شامل تھا۔
ہمیں امید ہے کہ پی سی بی اور آئی سی سی امپائرز کی خراب پرفارمنس کا بھی بھرپور جائزہ لے رہی ہوگی۔
ایکشن اب ٹیسٹ کے بجائے ون ڈے انٹرنیشنل کی طرف شفٹ ہوچکا ہے۔ ٹیسٹ سیریز کا ہیرو سرفراز احمد ون ڈے میں شامل نہیں ہے۔سلیکٹرز کا زور اب ریڈبال اور وائٹ بال کی الگ الگ ترجیحات پر ہے تو چلیں اس بات کو بھی ہضم کیے لیتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سرفراز کی غیر موجودگی میں اب ہیرو کا کردار کون ادا کرے گا؟
ماضی قریب میں ٹیم کے بے جان جسم میں جذبے کی نئی روح پھونکنے کا کام نائب کپتان شاداب خان انجام دیتے تھے لیکن اس وقت وہ بھی دستیاب نہیں۔
تو کیا کوئی نیا مجاہد ہمیں اس معرکے میں مثال بنتا نظر آئے گایا کوئی پرانا مسیحا اپنا جادو دوبارہ جگانے میں کامیاب ہوگا، یہ سوال اس سیریز اور عالمی کپ ہونے تک کے ہر ایک روزہ مقابلے میں ہمارے لئے اہمیت کا حامل رہنے والا ہے۔
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
Error: Could not authenticate you.
Your email address will not be published. Required fields are marked *