راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
انگلینڈ آیا اور ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کرکے چلا گیا۔ نیوزی لینڈ آیا، ٹیسٹ سیریز ڈرا کی اورون ڈے سیریز ہرا کے چلا گیا۔ ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کی اتنی ابتر حالت ہے تو سوچئے کہ باہر جا کے کیا ہوگی؟
پی سی بی کے سیٹ اپ میں تبدیلی سے ٹیم مینجمنٹ میں بھی تبدیلی کے آثار تو پیدا ہوئے ہیں لیکن کوئی بھی نیا کوچ یا کوچنگ ٹیم کتنے دن میں انقلابی اثرات پیدا کرسکتا ہے؟ کیا سینئرکھلاڑیوں میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں اورخامیوں کے بارے میں کسی کوچ یا ٹرینر سے رہنمائی لینے کے لئے تیار ہوں؟
کیا ہمارے کپتان، چاہے وہ بابر اعظم ہوں یا کوئی اور، میڈیا، کسی بھی سینئر کھلاڑی یا آفیشل کی بات سن کر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں؟ کیا ہمارے پرفارمنگ اسٹارز اپنی کارکردگی میں تسلسل لا کر ٹیم کو اسٹار ٹیم بنا سکتے ہیں؟ ان تمام سوالات کا اب ہم احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے اور شاید آئندہ چند ہفتوں تک کرتے رہیں کہ آن فیلڈ ایکشن اب پی ایس ایل تک رک گیا ہے۔
جس زمانے میں پاکستان اپنی ہوم سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیل رہاتھاتو ہوم گراؤنڈ کا بھرپور ایڈوانٹیج لے رہا تھا۔اب پاکستان واپس شفٹ ہونے کے بعد اچانک ایسا لگنے لگا ہے جیسے ہم چاند پر کرکٹ کھیل رہے ہوں۔
وکٹ سازی کے بارے میں غیر یقینی کیفیت اور معیار ایک پہلو ضرور ہے لیکن انہی وکٹوں پر مہمان ٹیموں کی پرفارمنس ہم سے بہتر کیوں ہے؟ پڑوسی ملک بھارت دنیا بھر میں جیسی بھی کرکٹ کھیلے، اپنے گھر میں شیر ہوتا ہے۔
ہماری یہ کیفیت بدل کیوں گئی ہے؟ شاید اس کی وجہ فیصلہ کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے جن میں سے اکثر کے اندازے غلط بھی ہوتے ہیں۔ ٹیسٹ میچ کے لئے وکٹ سازی میں چئیرمین، ہیڈکوچ، کپتان اورریٹائرشدہ کھلاڑی تک شامل ہوجاتے ہیں اوروکٹ کا بھرتہ بنا دیتے ہیں۔
ہمیں تو حیرت ہوئی کہ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں چیف سلیکٹر شاہدآفریدی وکٹ کی تیاری کے معاملے میں پیش پیش رہے اور احکامات جاری کرتے رہے۔ ہمارا خیال ہے کہ وکٹ سازی ایک پیشہ ورانہ شعبہ ہے اور اس کے لئے ماہرین کی کسی ایک ٹیم کو نافذ کرکے چھوڑ دیا جائے کہ اگلا ہوم ٹیسٹ اب اگلے سال ہوگا۔
وکٹ کسی بھی طرح کی ہو، پروفیشنل کرکٹرز کا کام اس کے حساب سے خود کو ڈھالنا ہے۔ ہوم گراؤنڈ پر محدود اوورز کی کرکٹ میں بھی ہمارے کھلاڑی اس تبدل سے قاصر ہیں۔ کچھ حصہ اس میں ناقص کوچنگ اور کپتانی کا بھی ہے۔
بیٹنگ کوچ محمد یوسف اپنے زمانے میں خراب رننگ اور فیلڈنگ کے لئے مشہور تھے تواب کیسے بیٹرز کو بتائیں گے کہ جب شاٹ نہ لگ رہے ہوں تو سنگل ڈبل کا گیم کھیلو۔
کپتان صاحب گیم کی صورت حال کے بجائے اپنی سہولت سے اسٹرائیک ریٹ لے کر چلتے ہیں تو دوسروں کو کیسے کہیں کہ کب تیز ہونا اور کب تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے۔ خود کو چھوڑ کے بس دوسروں کا بیٹنگ آرڈر آگے پیچھے کرتے رہنا ان کو آتا ہے۔
فاسٹ بولنگ کا واحد معیار صرف رفتار کو سمجھ لیا گیا ہے۔ لائن لینتھ اورسوئنگ کو طاق پہ رکھ دیا گیا ہے۔اگر کوئی اچھی بولنگ کرلے تو اس کو ہر فارمیٹ میں رگڑتے رہو اور ان فٹ کردو جیسے شاہین آفریدی اور حارث رؤف۔
ویسے تو نسیم شاہ نے بھی پہلے پانچ ون ڈے انٹرنیشنلز میں 18وکٹیں لے کر عالمی ریکارڈ بنایا ہے اور ٹیسٹ میں بھی عمدہ بولنگ کی ہے لیکن شکر ہے کہ ان کو ہر میچ کھلانے کی نوبت نہیں آپارہی اور ان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری ون ڈے میں آرام دیا گیا۔
حارث رؤف نے البتہ گزشتہ سال فاسٹ بولنگ کا بوجھ تقریباً اکیلے اٹھایا ہے لیکن اب ان کوانجری کے بعد ردھم میں آنے میں وقت لگ رہا ہے۔صف اول کے تین بولرز کا ورک لوڈ ہم سے مینج نہیں ہورہا اور بینچ کی حالت ویسے ہی پتلی ہے۔
ٹیسٹ میں تو فلیٹ پچوں کے باعث محمد علی، حارث رؤف اور وسیم جونئیرکے ڈیبو اورمیر حمزہ، فہیم اشرف اورحسن علی کی واپسی جیسے تجربات ناکام ہوگئے لیکن وائٹ بال میں محمد حسنین کا مسلسل ریزرو میں رہنا اور موقع ملنے پہ کچھ نہ کرپانا اب تنگ کرنے لگا ہے۔ان کا تعارف ضرور اسپیڈ کی وجہ سے ہوا تھا لیکن انہوں نے شاہین، نسیم اوررؤف کی طرح امپروونہیں کیا۔
آٹھ ون ڈے میں 12وکٹ اور 27ٹی ٹوئنٹی میں 25وکٹ ہرگز ایسا ریکارڈ نہیں ہے کہ اب ان کو ڈومیسٹک یا پی ایس ایل میں کسی فقیدالمثال کارکردگی کے بغیر آٹومیٹک سلیکٹ کیا جائے۔ یہی حال شاہنواز دھانی کا بھی ہے جو خوش مزاج ہیں، پاپولر ہیں اورہروقت کسی نہ کسی کیمرے کے سامنے رہنے کوکیرئیر کی معراج سمجھنے لگے ہیں۔
مستقل دو سال سے بنچ پر بیٹھے رہنے والے دھانی کو یقینا صرف سیلفیاں کھینچنے کے لئے ٹیم کے ساتھ نہیں رکھا گیا۔ ون ڈے تو صرف انہوں نے دو کھیلے ہیں لیکن 11ٹی ٹوئنٹی میں 40کی اوسط اور9کے اکانومی ریٹ کے ساتھ محض8وکٹ کا ریکارڈ شاید ڈومیسٹک سرکٹ کا کوئی بھی بولر قائم کرلے۔
حسنین اور دھانی کے مستقبل پر سنجیدگی سے پی سی بی کو غور کرنا ہوگا کیونکہ یہ صرف ان کے نہیں بلکہ باقی فاسٹ بولرز کے بھی کیرئیر کا سوال ہے۔محمد وسیم جونئیر کی پرفارمنس ان دونوں سے بہتر ہے لیکن ان پر لگے آل راؤنڈر کے الزام کو ہٹا کے ان کی بولنگ پہ مزید کام کی ضرورت ہے۔
اسی طرح اسپن بولنگ میں اگر ہم نے ابرار احمد کو دریافت کرلیا تو اس سے دوسوسے زائد اوورز کروا کے ایکسپوز بھی کردیا۔کپتان نے ٹیسٹ میں سوچ لیا کہ ابراروکٹ لے سکتا ہے تو اس کو دوسرے تیسرے اوور میں لاؤں گا اور اس وقت تک تبدیل نہیں کروں گا جب تک اگلی ٹیم آل آؤٹ نہ ہوجائے یا ڈیکلئر نہ کردے۔
یوں مسٹری اسپنر کی ساری مسٹری دنیا کی سامنے ایکسپوز ہوتی ہے تو ہوتی رہے، اس سے زیادہ غور کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ اپنے زمانے کے مشہور مسٹری اسپنر ثقلین مشتاق ہیڈ کوچ ہونے کے باوجود یہ بات کپتان کو نہیں سمجھا جاسکے کیونکہ ان کو کسی بحث میں پڑنے کے بجائے اپنی نوکری عزیز تھی۔ جیت ہار تو ویسے بھی قدرت کے ہاتھ میں ہے۔
بیٹنگ میں بھی کپتان صاحب کی انفرادی پرفارمنس اور عالمی رینکنگ سے نظر اٹھاؤں تو کچھ اور دیکھوں۔ سونے پہ سہاگہ عوام کا بھی بس نہیں چلتا کہ بس اسی رینکنگ کی نظر اتارتے رہیں۔ خیر اس پر اتنا بولا جاچکا ہے کہ آگے چلتے ہیں۔
ٹیسٹ کی ڈوبتی نیا کوتو سرفراز احمد اورسعود شکیل کا سہارا مل گیا لیکن ون ڈے میں کوئی تسلسل کے ساتھ کھیلنے کو تیار نہیں ہوتا۔ فخر زمان نے دو نصف سنچریاں ضرور بنائیں لیکن فیصلہ کن معرکے کے لئے ہم لیٹ آرڈر کی طرف ہی دیکھتے رہتے ہیں۔
محمد رضوان کی کارکردگی بلاشبہ متاثر کن ہے لیکن بابر اعظم کا ٹورنامنٹ کے فائنل یاسیریز کے فیصلہ کن میچ میں فیل ہوجانا اب معمول بنتا جارہا ہے۔امام الحق کی جگہ شان مسعود کو امام کی انجری کے باعث کھلایا گیا یابہانہ بنایا گیا یہ تو ہمیں نہیں معلوم لیکن دس سال سے ٹیم میں موجود شان کی اب ٹیم میں ہی جگہ نہیں بنتی اور ان کو نائب کپتان بنادیا گیا ہے۔
سننے میں آرہا ہے کہ الگ الگ کپتانوں کی بندر بانٹ کے بعد شان کو شاید ون ڈے کا کپتان بھی بنادیا جائے۔ ایسا ہوا تو ہم اور عوام سر پیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں رمیز راجہ یاد آجائیں گے۔ان کو بھی صرف انگریزی اچھی بولنے کی وجہ سے قیادت سونپ دی جاتی تھی۔ دوسری جانب حارث سہیل کی طرف سے بھی اب ہاتھ جھاڑ لیے جائیں تو بہتر ہے۔
کئی کوچ ان کو ٖفٹنس پر کام نہ کرنے اورآؤٹ کرکٹ خراب ہونے کا الزام دے چکے ہیں۔رننگ کمزور ہونے کے باعث وہ آج کل کی تیز کرکٹ میں ایک چلتی پھرتی وکٹ ہیں۔ اس پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت ایسی کہ آخری ون ڈے میں سر پر گیند لگنے کے بعد ریٹائرڈ ہرٹ نہ ہوئے تاکہ تازہ دم متبادل کامران غلام اندر آجائے۔ اس کے بجائے رن آؤٹ ہوئے اور کامران غلام کا آفیشل ڈیبوصرف فیلڈنگ کرتے گزر گیا۔
کپتانی کے معاملے میں جتنا جلدی فیصلہ ہوجائے تو اچھا ہے کیونکہ بابر کی غلطیاں اب زبان زد عام ہوچکی ہیں اور ان کو دہرانے کا بھی اب دل نہیں چاہتا۔ اگلا ایک مہینہ پی سی بی میں تبدیلیوں کا مہینہ ہے۔
جیسے جیسے معاملات سامنے آئیں گے ان پر بات ہوتی جائے گی۔امید ہے کہ پاکستان کرکٹ کا ٹیڑھی کل والا اونٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
Error: Could not authenticate you.
Your email address will not be published. Required fields are marked *