Pakistan Cricket 808x454

پاکستان ویمنز کرکٹ کو درپیش چیلنجز

38 views

پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی تاریخ یوں تو بہت زیادہ پرانی نہیں لیکن پچھلے پچیس تیس سال کی کارکردگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو نتائج کم و بیش یکساں ہی نظر آئیں گے۔

فریال حمیدی

گزشتہ دنوں ہماری سینئر ویمنز ٹیم آسٹریلیا کے ہاتھوں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بدترین پرفارمنس دکھا کے واپس لوٹی۔ یہ دورہ تاریخی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ پہلی بار ہماری خواتین ٹیم ایک فل ٹور پر آسٹریلیا گئی تھی۔تاہم یہ دورہ غلط معنوں میں یادگار بن گیا۔

پہلے تین ون ڈے انٹرنیشنلز کی سیریز ہوئی جہاں ہماری بیٹنگ لائن اپ صرف مزاحمت کرتی دکھائی دی۔لگتا تھا کہ ٹیم کا مقصد صرف مقررہ پچاس اوورز کھیلنا تھا(پہلا ون ڈے چالیس اوورز تک محدود تھا)۔ رنز چاہے کتنے بھی بنیں، کوچز نے سیکھا کے بھیجا تھا کہ بس پورے اوورز کھیلنے ہیں۔

نتیجہ انتہائی لو اسکورنگ کی شکل میں نکلا۔جیسے پہلے ون ڈے میں پاکستان نے 40اوورز میں 158رنز اسکور کیے۔یہ ہدف آسٹریلین ٹیم نے 28.5اوورز میں پورا کرلیا۔ اگلے میچز میں بھی اسکور لائن ایسی ہی رہی۔

بیٹنگ کے بعد ہماری بولنگ بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرپائی اور یوں یہ سیریز نہ صرف آسٹریلیا نے بآسانی جیت لی بلکہ ہر شعبے میں اپنی مہارت اور برتری کی چھاپ چھوڑ دی۔

اگلا پڑاؤ ٹی ٹوئنٹی سیریز تھا اور یہاں بھی ہماری خواتین ٹیم نے روایتی کم ہمتی، غیر پیشہ ورانہ اپروچ اورپورے اوورز گزارنے والی اسی گھسی پٹی سمجھ نہ آنے والی اپروچ کا مظاہرہ کیااور صرف 20اوورز کھیلے، رنز چاہے جتنے بھی اسکور ہوں۔

بحالت مجبوری، مخالف ٹیم کو روکنے کی ناکام سی کوشش بھی کی۔ نتیجہ وہی رہا یعنی ذلت آمیز شکست اور دنیا بھر کے شائقین کی طرف سے بے تحاشہ تنقید اور تمسخر۔وہ تو آخری ٹی ٹوئنٹی بارش کے باعث واش آؤٹ ہوگیااور ایک اور وائٹ واش بچ گیا ورنہ ایک ٹور پہ دو وائٹ واش کے ساتھ ہماری خواتین کرکٹرز کی خود اعتمادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا۔

اب ذکر ہوجائے ہماری انڈر19خواتین کرکٹ ٹیم اوراس کی جنوبی افریقہ میں ورلڈ کپ یاترا کا۔ خواتین کا انڈر 19ورلڈ کپ خواتین کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ایج گروپ عالمی کپ تھا جسے بھارت کی ٹیم نے بآسانی جیت کے اپنے نام کرلیا۔اس کے لئے بھارتی ٹیم بے تحاشہ دادوتحسین کی مستحق ہے۔

پاکستان چونکہ آئی سی سی کا فل ممبر ہے، اس لئے انڈر19ورلڈ کپ تک براہ راست رسائی ممکن ہوئی ورنہ اگر کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑ جاتاتو اس ایونٹ میں کھیلنا بھی محال ہوجاتا۔ خیر جو بھی ہوپاکستان نے تین گروپ میچز میں انگلینڈ کے خلاف ہارنے کے باوجود، زمبابوے اورروانڈا کے خلاف جیت کے سپر سکس کے لئے کوالیفائی کیا جو اصل میں سپر12تھا یعنی چار چارٹیموں کے چار گروپس سے تین تین ٹیمیں آگے بڑھیں اورسپرسکس کے دو گروپس بنائے

یہاں ہر ٹیم کو اپنے ابتدائی گروپ کی ٹیموں کے علاوہ باقی کوالیفائرز کے خلاف دو دو میچز کھیلنے تھے جن کے پوائنٹس ان کے ابتدائی پوائنٹس میں شامل ہوجاتے۔یوں ہر سپرسکس گروپ کی دو بہترین ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچتیں۔

پاکستان نے یہاں بھی آئر لینڈ کو تو شکست دی لیکن نیوزی لینڈ کو زیر نہ کرسکا۔یوں تین نسبتاًکمزور ٹیموں کے خلاف فتح کے ساتھ یہ مہم پاکستان کے لئے انجام کو پہنچی۔

نتیجہ تو یہی ہونا تھالیکن اس کے باوجود ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ہمارے پاس 15نوعمر لڑکیوں پر مبنی ایک بیک اپ تیار ہوگیا جسے بوقت ضرورت اپنی سینئر ٹیم میں شامل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہماری خواتین کرکٹرز کے سامنے اگلا چیلنج ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہے جوفروری میں جنوبی افریقہ میں ہی کھیلا جائے گا۔

پی سی بی کو صحیح معنوں میں ان لڑکیوں کی رہنمائی اور سپورٹ کی ضرورت ہے، اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین کرکٹ کے میدان میں اپنا اور پاکستا ن کا نام روشن کریں

۔ہمیں بھی ان پر اور خدا کی ذات پر پورا بھروسہ ہے لیکن بات محنت، کوشش اور سب سے بڑھ کے نیت کی ہے۔ کاش ان کھلاڑیوں کے لئے بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کے شعبوں کے ایکسپرٹ کوچز تعینات کیے جائیں۔

وہ تمام بڑے سابق کھلاڑی جو پاکستان مینز ٹیم کی کوچنگ حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے ہیں، خدا را ان خواتین کرکٹرز کو بھی اپنا ہی سمجھیں اور آگے آئیں۔ ان لڑکیوں کومستند ڈائٹ پلانرز، فٹنس ٹرینرز، فزیو تھراپسٹ اوروڈیو انالسٹ کی ٹیم دے کر ہائی پرفارمنس سینٹر میں ان کو ٹریننگ کروائی جائے۔

اس طرح ان کی جسمانی اور ذہنی مضبوطی کی تربیت ہوگی۔ سینئر اورجونئیر خواتین ٹیموں کے مابین اور ہوسکے تو مینز جونئیر ٹیموں کے خلاف بھی ان کے میچز،منعقد کروائے جاسکتے ہیں تاکہ ان کی کارکردگی اور اعتماد بہتر ہوسکیں۔

موجودہ صورت حال میں خواتین کو عالمی ایونٹس میں بھیجنا، بڑی ٹیموں کے خلاف شکست کے لئے دماغی طور پر تیار کرنااوربزدلانہ حکمت عملی تیار کرنا ان کی خود اعتمادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔

ان کو پلیٹ میں رکھ کے بڑی ٹیموں کے سامنے پیش کردینے کے بجائے لڑائی کرکے ہارنا سکھاناچاہئے جو آگے ان کو جیت کی طرف بھی لے جائے گا۔امید ہے کہ ہم مستقبل میں خواتین ٹیم کی بہتر کارکردگی سے پہلے تربیت اور تیاری کے بہتر انتظامات دیکھیں گے تاکہ وہ اپنے فینز، سپورٹرز اور قوم کی امیدوں پر پورا نہ بھی اتر پائیں تو بھی ان کی ملک میں اور ملک کے باہرجگ ہنسائی نہ ہو۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *