cricket PakistanTV 720x454

انٹرنیشنل کرکٹ ٹی وی سے غائب

21 views

ہوا کچھ یوں یہ کہ مورخہ 29جنوری2023،  بروز اتوار کرکٹ کی عالمی دنیا میں کافی معرکے ہورہے تھے۔بھارت اور نیوزی لینڈ تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلزکی سیریز کا تیسرا میچ کھیلنے میں مصروف تھے جبکہ جنوبی افریقہ اور انگلینڈ تین ون ڈے انٹرنیشنلز کی سیریز کا دوسرا میچ کھیل رہے تھے۔

عدنان حسن سید

خواتین کے انڈر19ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کا فائنل بھارت اورانگلینڈ کے مابین ہورہا تھا جبکہ پاکستان ویمنز کاآسٹریلیا ویمنز کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل بھی اسی دن شیڈولڈ تھا۔کرکٹ کے علاوہ ہاکی کا عالمی کپ فائنل بھی بیلجئیم اور جرمنی کے درمیان جاری تھا۔تاہم ان بین الاقوامی مقابلوں میں سے کوئی بھی پاکستان میں کوئی  سیٹیلائٹ چینل براڈ کاسٹ نہیں کررہا تھا۔

اگر کرکٹ کے نام پر کچھ آن ائیر تھا تو وہ متحدہ امارات میں کھیلی جانے والی غیر سرکاری ٹی ٹوئنٹی لیگ تھی جس کے اعدادوشمار کی بھی آئی سی سی کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں۔یہ لیگ ایک نہیں بلکہ دو چینلز پر براہ راست آرہی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مذاکروں اور ٹاک شوز کے نام پر یہ چینلز مستقل پاکستان کرکٹ کے معاملات پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں لیکن کرکٹ کے فروغ اور بامعنی کوالٹی آف کرکٹ ناظرین تک پہنچانے میں ان کا کیا کردار ہے،  اس اتوار کا ایک دن اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

ایک زمانے میں پاکستان میں تین سیٹیلائٹ اسپورٹس چینلز ہوتے تھے یعنی جیو سپر،  پی ٹی وی اسپورٹس اور اگر بین الاقوامی نیٹ ورک تاج انٹرٹینمنٹ کے ٹین اسپورٹس پاکستان کوبھی پاکستانی مان لیا جائے۔آئی سی سی کے ایونٹس اورسیریز کے رائٹس انہی چینلز کے درمیان بٹے ہوئے تھے اور کبھی کبھار کوئی میچ اے آروائی پر بھی آجاتا تھا جو باقاعدہ اسپورٹس چینل نہیں تھا۔

کسی سیریز کے رائٹس ان تینوں ہی چینلز میں سے کسی کے پاس نہیں ہوتے تھے،  اسی لئے کیبل آپریٹرز کو بھارتی اسٹار اسپورٹس یا جنوبی افریقہ کا سپراسپورٹس دکھانے کی اجازت تھی تاکہ ہر انٹرنیشنل مقابلہ پاکستان میں براڈ کاسٹ ہوسکے

۔آج فاسٹ اسپورٹس اور اے آر وائی نیٹ ورک کے اے اسپورٹس کو شامل کریں تو  پانچ پاکستانی اسپورٹس چینلز موجود ہیں لیکن پاکستان کی شمولیت کے علاوہ کوئی بین الاقوامی کرکٹ مقابلہ کوئی ایک چینل بھی شاذونادر دکھاتا ہے۔اگر دکھاتا بھی ہے تو جزوی طور پر کور کرتا ہے اور الٹی سیدھی لیگز دکھانے کو ترجیح دیتا ہے۔

ہمارے خیال میں خرابی کی جڑ دو باتیں تھیں۔ سب سے پہلے تو پیمرا نے بھارتی چینلز پر پابندی لگائی تو ہم کیبل پراسٹار اورسونی نیٹ ورک سے محروم ہوگئے۔یہ پابندی صرف بھارتی چینلز نہیں بلکہ بھارتی کرکٹ دکھانے تک پہنچ گئی اور اس کا سب سے بڑاشکار جیو سوپر ہوا جس کے پاس بھارتی کرکٹ سیزن اور آئی پی ایل کے ٹی وی رائٹس تھے۔

پیمرا نے بھارتی نیٹ ورکس تو بلاک کیے سو کیے، کیبل آپریٹرز کو سپر اسپورٹس،  برطانیہ کا اسکائی اسپورٹس،  آسٹریلیا کا فوکس اسپورٹس،  جنوبی امریکہ کا ویلوکرکٹ،  ملائیشیا کا ایسٹرو کرکٹ،  دوبئی کا او ایس این اورقطر کا بین اسپورٹس بھی دکھانے کی ہدایت نہیں کی۔

بھارت کے ساتھ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن کرکٹ کو سیاست سے دور رکھیں کا نعرہ لگا کے پاکستانی اسکرینز سے بھارتی کرکٹ کو غائب کرنے کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ واضح رہے کہ یہ جذبات دوطرفہ نہیں ہیں اور بھارت میں سونی نیٹ ورک پاکستانی سیزن اور پی ایس ایل ہم سے زیادہ زور شور سے دکھاتا ہے اور پیسہ کماتا ہے۔

چلیں ایک لمحے کو مان بھی لیں کہ ہم جذبات کے معاملے میں بھارت سے آگے ہیں،  پھر بھی برطانیہ،  جنوبی افریقہ،  انگلینڈ،  ملائیشیا اورمشرق وسطیٰ کے نیٹ ورکس کا پاکستان میں عدم دستیاب ہونا میڈیا پالیسی اورٹیکنالوجی کے معاملے میں ہمیں پیچھے کی جانب لے جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ان میں سے بیشتر نیٹ ورکس کے ساتھ پی سی بی کا معاہدہ ہے کہ وہ تمام میچز ان کو دکھانے دے گا جن کا میزبان پاکستان ہوگا۔ایسے معاہدوں کے باوجود قانونی طور پر خود ان نیٹ ورکس کے پروگرام دکھانے کی اجازت کیبل آپریٹرز،  پی ٹی سی ایل یا دیگر ٹی وی سروس پرووائڈرز کو کیوں نہیں،  یہ سوال خاصا اہم ہے۔

ایسی کون سی قانونی یا سیاسی مجبوری ہے کہ پاکستانی شائقین قانونی طور پر اپنے ٹی وی اسکرینز پہ انٹرنیشنل کرکٹ دیکھنے سے محروم ہیں۔ ان چینلز کے دکھانے سے کسی پاکستانی چینل کے مفادات پر بھی کوئی ضرب نہیں لگتی کیونکہ وہ تو بین الاقوامی ایونٹس دکھانے کے بجائے لیگز دکھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

چینلز کی جنگ میں دوسری چپقلش اس وقت ہوئی جب پی ٹی وی اسپورٹس نے اسٹیٹ چینل ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ حق استعمال کیا کہ وہ پاکستان کی شمولیت والے سارے میچز دکھانے کا مجاز ہے۔

گویا ٹین اسپورٹس یا جیو سوپر کوئی بھی نیلامی جیتیں،  ان کو وہ ایونٹ پی ٹی اسپورٹس کے ساتھ شئیر کرنا ہوگا جو اس وقت بغیر کیبل کے عام انٹینا پربھی آتا تھا۔اس طرح بھاری بولی دے کر جیتنے کی صورت میں بھی اشتہارات کی آمدنی سے کمانے کا چانس ان کو نہیں ملتا تھا۔

بھارت کا میچ کہیں بھی کھیلا جارہا ہو،  وہ دکھانے کی اجازت ویسے ہی نہیں تھی،  اس لئے جیو سوپر نے رائٹس کی اس جنگ سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرلیا۔ ٹین اسپورٹس کے پاس کچھ ممالک کی کرکٹ دکھانے کے حقوق تھے جو اب وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوگئے ہیں یا ان کا استعمال کم ہوگیا ہے۔

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اے اسپورٹس ٹی وی پر وہی دکھاتا ہے جو باقی تینوں میں سے دویا کسی ایک پر پہلے سے آرہا ہوتا ہے۔البتہ کچھ ایونٹس وہ صرف اپنی ڈیجیٹل ایپ پہ اسٹریم کرتا ہے۔اس نیٹ ورک کا ٹی وی پر کوئی الگ سے فائدہ شائقین کو نہیں ہوا

ٹین اسپورٹس کوئی سیریز یا سیزن مکمل ٹیلی کاسٹ نہیں کرتا۔پی ٹی وی اسپورٹس پاکستانی میچز کے علاوہ کچھ نہیں دکھاتا اورجیو سوپرکلب لیول یا اس سے بھی نیچے کے نائٹ ٹورنامنٹس اوربہت ہی پرانے میچز کی جھلکیاں دکھانے میں خوش ہے یا اینکرز کو بٹھا کے باتیں بگھارنے میں۔

ٹیسٹ کرکٹر باسط علی نے حال ہی میں ایک پینل انٹرویو پر ہمارے اسی سوال کے جواب میں کہا کہ وہ جب بھی کوئی پاکستانی چینل دیکھتے ہیں وہاں ٹیپ بال کرکٹ آرہی ہوتی ہے۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ لیگز میں سے بھی بیگ بیش،  کیریبیئن لیگ اور ہنڈرڈسے دور بھاگ کے ہمارے چینلز چھانٹ کے کوئی غیر اہم یا غیر سرکاری نمائشی میچز دکھا رہے ہوتے ہیں۔ ادھر فاسٹ اسپورٹس کی پروگرامنگ میں کرکٹ تو شامل ہے ہی نہیں

لیکن وہ بھی قومی کھیل ہاکی کے نام پر پرانے انٹرویوز یا بلیک اینڈ وائٹ میچز کی جھلکیاں دکھاتا ہے ورنہ اسنوکر چھایا رہتا ہے۔اگر فاسٹ اسپورٹس کے پاس کرکٹ کور کرنے کا لائسنس نہیں تو کم از کم ہاکی کے عالمی ایونٹس کے لئے ہی کوشش کرلے۔

اس قحط الرجال کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ انٹرنیشنل کرکٹ دیکھنے کے لئے پاکستان میں غیر قانونی ایپس یا اسٹریمنگ کا سہارا لیتے ہیں۔وہ نوعمر بچے جو فی الحال اس ٹیکنالوجی تک نہیں پہنچے،  ان کو دکھانے کے لئے ہمارے پاس صرف پاکستان کے میچز اور ان ہی کے نشرمکرر ہیں۔

مستقبل میں انٹرنیٹ کی سیکورٹی اور پابندی بڑھ جائے گی اورٹی وی پر یہی حال رہا تو پاکستانی شائقین کنوئیں کے مینڈک بن کے رہ جائیں گے اور بین الاقوامی کرکٹ کی جھلک کو بھی ترس جائیں گے۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *