barkhan web 808x454

بارکھان سانحے کے مرکزی کردار سردار عبدالرحمان کھیتران کون ہیں

157 views

 بلوچستان کے علاقے بارکھان سے  ایک انتہائی انسانیت سوز واقعہ رپورٹ ہوا  جب بارکھان کے علاقے میں کنویں سےخاتون سمیت 3 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ دکی کے رہائشی خان محمد مری نے دعویٰ کیا تھا کہ تینوں لاشیں اس کی اہلیہ 40 سالہ گراں ناز، 22 سالہ بیٹے محمد نواز اور 15 سالہ بیٹے عبدالقادر کی ہیں، جو گزشتہ چار برس سے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے۔ خان محمد مری کے مطابق ان کی اہلیہ اور بچوں پر بدترین ظلم کے ساتھ بھوکا پیاسا بھی رکھا جاتا تھا جبکہ ان کی 14 سالہ بیٹی اور 5 سے 13 برس کے 4 بیٹے اب بھی صوبائی وزیر کی نجی جیل میں قید ہیں جن کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہیں

بارکھان میں کیا ہوا تھا:

گزشتہ دنوں بارکھان سے گراں ناز مری نامی ایک خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ قرآن پاک ہاتھ میں لیئے اپیل کر رہی ہے کہ مھجے سردار عبدالرحمان کھیتران کے قید سےآزاد کیا جائے ۔

 ان کے شوہر خان محمد مری یہ دعوی کرتے ہوئے سامنے آئے کہ2019 کو سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے خاندان کے منحرف اپنے چوتھے بیٹے انعام کھیتران کے خلاف گواہی نہ دینے کی پاداش میں میری بیوی اوربیٹی اور بیٹوں کو اپنے قید میں رکھا ہے .

جس کے بعد سردار عبدالرحمان کھیتران کے آبائی کلی حاجی گوٹھ بارکھان میں واقع ان کے گھر سے دو کلومیٹر دور ایک کنویں سے تین افراد کی لاشیں ملی .

جس پر خان محمد مری نے کہا کہ یہ ا نکی بیوی اور دو بیٹوں کی لاشیں ہیں جنہیں  سردار عبدالرحمان کھیتران نے قتل کروادیا ہے۔

معاملہ سوشل میڈیا میں وائرل ہوا میتوں کو بارکھان سے کوئٹہ لایا گیا جہاں مری قبائل نے وزیر اعلی ہاوس کے سامنے دھرنا دیا جس پر سرکار حرکت میں آ گئی اور ڈی آئی جی کی سربراہی میں ایک جے آئی ٹی کی تشکیل کا اعلان ہوا

حکومت بلوچستان کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کو بلوچستان کے سیاسی جماعتوں سول سوسائٹی اور مری قبائل نے مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر زور دیا  ہے۔

جبکہ سردار عبدالرحمان کھیتران کو بھی گرفتار کرلیا گیا  دوسری جانب  لاشوں کا  پوسٹ مارٹم کرنے والی خاتون ڈاکٹرعائشہ فیض کا بیان بھی سامنے آگیا ہے کہ جن لاشوں کی پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے ان میں ایک اٹھارہ سالہ خاتون اور دو مرد ہیں۔

خاتون کو تشدد کرکے چھ گولیاں ماری گئی ہیں  اور جنسی زیادتی کرکے ان کے جسم پر تیزاب پھینک دیا گیا  ہے تاکہ شناخت ممکن نہ رہے۔

بارکھان سانحے کا نیا موڑ گراں ناز بازیاب

 سردار عبدالرحمان کھیتران کی گرفتاری کے بعد  بارکھان میں گزشتہ شب لیویز نے کاروائی کرتے ہوئے گراں ناز مری اور ان کے دیگر بیٹوں کو بازیاب کیا  ہے

 گرں  ناز مری کے زندہ سلامت سامنے آنے کے بعد بارکھان کیس ایک نئے موڑ میں داخل ہو گیا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کنویں سے ملنے والی لاشوں میں وہ  اٹھارہ سالہ لڑکی  بھی کسی کی بہن اور بیٹی ہے کسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ  یہ اٹھارہ سالہ لڑکی کس کی ہے کس خاندان سے ہے

بارکھان سانحے کے مرکزی کردار سردارعبدالرحمان کھیتران کون ہیں

اب ذرا نظر ڈالتے ہیں کہ بارکھان سانحے کے مرکزی کردار سردارعبدالرحمان کھیتران کون ہیں

عبدالرحمان کھیتران بلوچستان اسمبلی میں موجودہ صوبائی وزیر مواصلات اور حکومتی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور اپنے قبیلے کے سرادر ہیں جن پرمبینہ طور پر  خان محمد مری کے اہل خانہ کے  اغوا اور قتل کا الزام ہے-

سردار عبدالرحمان کھیتران کو پہلی بار 2006 میں دو نابالغ لڑکیوں کی زبردستی شادیوں کا حکم دینے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا ۔

سردار عبدالرحمان کیھتران پر نجی جیل چلانے اور خواتین اور بچوں کو قید میں رکھنے کا معاملہ  ماضی میں بھی سامنےآچکا ہے ۔

اس وقت کی استغاثہ کے مطابق بلوچستان کے سردار عبدالرحمان  کھیتران  جو وزیر خوراک تھے ان کے بیٹوں اور ساتھیوں پر جنوری 2014ء میں بارکھان میں نجی جیل قائم کرنے اور وہاں لوگوں پر تشدد کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔

 بارکھان پولیس نے سردار عبدالرحمان کھیتران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے ڈیرے پر چھاپہ مارا اور انھیں گرفتار کیا تھا  جبکہ ان کی  نجی جیل سے ایک خاتون سمیت پانچ افراد کو بازیاب بھی کرایا تھا-

سال  2019 میں کوئٹہ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت نے نجی جیل قائم کرنے اور اغوا کے کیس میں حالیہ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان  کھیتران، ان کے بیٹوں اور ساتھیوں کو بری کردیا تھا۔

23 جولائی 2020 کو ضلع بارکھان کے علاقے نہر کوٹ قریب سردار کھیتران کے مسلح گارڈز نے فائرنگ کرکے بارکھان کے مقامی صحافی انور جان کھیتران کو قتل کردیا تھا۔

مقتول صحافی کے بھائی کا الزام تھا کہ ان  کے  بھائی کو صوبائی وزیر کے مظالم اور کرپشن کے خلاف سوشل میڈیا پر لکھنے پر قتل کیا گیا-

صحافی انور جان کھیتران قتل کے خلاف بلوچستان بھر میں آبادی و انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے جس کے بعد پولیس نے صحافی قتل میں ملوث صوبائی وزیر کے گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا۔

بلوچستان میں ظالم  سرداروں کی نجی جیلیں ، غریب لوگوں پر ظلم وزیادتی  اور ریاست کو بلیک میل کرنے کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس طرح کے حادثات پر بغیر کسی سیاسی مصلحت کے ایکشن کیا جائے ۔

 بارکھان سانحے میں گراں ناز بی بی ان کی بیٹی اور تین بیٹوں کو زندہ سلامت بازیاب کرلیا گیا ہے ۔ لیکن کیا اس کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ بارکھان بارڈر پر کس کی تحویل میں تھے اور ان کو اس طرح حبس بے جا میں رکھنے کا حق کس کے پاس اور کیوں تھا ۔

بارکھان کے کنویں سے جو اٹھارہ سال کی  لڑکی کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاش ملی ہے وہ کس کی ہے اور اس کے ساتھ کس نے زیادتی کی ۔

اسی کنویں سے ملنے والی دو مردوں کی لاشیں کن کی ہیں اور وہ کس کے بیٹے تھے انہیں کس جرم میں اس طرح قتل کرکے پھینک دیا گیا ۔

بارکھان میں ہونے والے اس سانحے کے خلاف   خاران،تربت،دالبندین،کوئٹہ،بارکھان،واشک اور  دیگر شہروں میں  احتجاجی مظاہرےجاری ہیں  ۔

ان آوازوں کو  ان ان سنا مت کریں

بلوچستان کے دکھ  ویسے بھی کم نہیں ہیں یہ حکومت وقت اورطاقتور حلقوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ اس بارکھان سانحے میں انصاف کے حصول کوممکن بنائیں  اور اس سانحے کے مظلومین کو احساس دلائیں کہ یہ ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے ۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *