راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
لاہور میں ہونے والا فیض میلہ تو اپنے اختتام کو پہنچ گیا لیکن اس میں شریک سرحد پار سے مہمان بھارتی نغمہ نگار، لکھاری اور فلم ساز جاوید اختر کی جانب سے سوال جواب کے سیشن میں پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ممبئی حملوں کے لوگ اب بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں اور اس بات کو ایک ہندوستانی کا شکوہ سمجھ کر برداشت کریں۔
بھارتی نغمہ نگار ، لکھاری اور فلم ساز جاوید اختر سے جب فیض میلے میں ایک خاتون نے سوال کیا ہندوستان میں ہمارا (پاکستانیوں کا)امیج غلط بنا ہوا ہے ۔آپ یہاں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان کتنا پرامن ملک ہے اور یہاں کے لوگ کتنے پیار کرنے والے ہیں، یہ جگہ جگہ بم نہیں مارتے آپ ان کو جا کر نہیں بتاتے یہ بات کہ پاکستان ایک اچھا ملک ہے ؟
اس کے جواب میں جاوید اختر نے جو کچھ کہا اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور ان لوگوں کی بھی جنہوں نے اس جواب پر تالیاں بجائی تھیں۔
جاوید اختر صاحب نے فرمایا تھا کہ
”آپ کی بات میں سچائی ہے ،ایک دوسرے کے بارے میں لاعملی دونوں طرف ہے ۔ مہدی حسن آۓ وہاں بہت بڑا فنکشن ہوا ، نورجہاں آئیں کیا شاندار استقبال تھا ۔ شبانہ نے کمنٹری کی تھی لکھی میں نے تھی ۔
فیض جب آۓ تو یوں لگتا تھا جیسے کسی سٹیٹ کا ہیڈ آیا ہوا ہے ، آگے پیچھے تو گاڑیاں ہوتی تھی ساٸرن والی اور گورنر ہاٶس میں ٹھہرتے تھے ۔
ٹی وی چینل کوریج کرتے تھے ۔ یہاں پر پی ٹی وی پر تو ساحر کی، کیفی کی، علی سردار کی تو کبھی کوٸی کوریج نہیں ہوٸی۔
اب تو پرائیوٹ چینل آ گئے ہیں، پی ٹی وی پہ کبھی نہیں ہوا، لیکن وہاں ہوا یہ ۔ یہ جو بندش ہے کمیونیکیشن پر اور کوشش ہے لوگ ایک دوسرے کو جان نہ سکیں، معاف کیجیے یہ دونوں طرف ہے لیکن آپ کی طرف شاید تھوڑی سی زیادہ ہے ۔
یہاں میں تکلف سے کام نہیں لوں گا ۔ اب کم ہو رہی ہے، خوشی کی بات ہے ۔ ہم نے تو نصرت کے بڑے بڑے کنسرٹ کراۓ ، مہدی حسن کے بڑے کنسرٹ ہوۓ ،آپ نے تو لتا منگیشر کا کوئی کنسرٹ نہیں کرایا ۔
چلیے اب ہم ایک دوسرے کو الزام نہ دیں ۔ سب سے اہم جو ہے بات یہ گرم فضا کم ہونی چاہیے۔ ہم تو ممبئی کے لوگ ہیں ، ہم نے دیکھا کہ جس طرح ہمارے شہر پہ حملہ ہوا تھا ،وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آۓ تھے ۔وہ لوگ اب بھی یہاں گھوم رہے ہیں،اگر یہ شکایت ایک ہندوستانی کے دل میں ہو تو آپ کو برا نہیں منانا چاہیے ۔‘‘
کیا جاوید صاحب جن کا پہلا تعارف ایک فلمی نغمہ کار کا ہے ان کو کیسے یہ علم نہیں ہے کہ لتا منگیشکر کو پاکستان بلانے کی دعوت دی گئی تھی لیکن وہ کبھی نہیں آئیں۔
اس کی وجہ استاد سلامت علی خان کے ساتھ ان کا عشق تھا جس کی وجہ سے انہوں نے کبھی پاکستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا ۔
حیرت ہے جاوید صاحب یہ کیسے بھول گئے کہ بھارتی فنکار جو پاکستان آئے ان کو یہاں ہم نے اپنی پلکوں پر بٹھایا ۔ جاوید صاحب کیسے بھول گئے کہ دلیپ کمارفاطمید کے فنکشن میں آئے تھے تو پاکستان میں انہیں سربراہ مملکت کی طرح کا پروٹوکول دیا گیا تھا۔
کیا شتروگھن سنہا ضیا دور میں صدارتی مہمان کے طور پرپاکستان نہیں آئے تھے ۔ کیا ریکھا جب پاکستان آئی تھیں تو پاکستان میں ان کو پروٹوکول نہیں دیا گیا تھا ۔
کیا اوم پوری، نصیر الدین شاہ ، ارمیلا اور دیگر بھارتی فنکاروں کو پاکستان آمد پر محبت اور پزیرائی نہیں ملی ۔کیا بھارتی شاعر ادیبوں کو یہاں بلایا نہیں جاتا رہا کیا ان کی پذیرائی میں کوئی کمی کی گئی ۔
بلکہ بھاتی پنجاب سے جو فنکار بھی پاکستان آتے رہے ہیں پاکستانیوں نے انہیں بھرپور محبت دی ہے ۔
کیا جب سونو نگم کراچی میں کانسرٹ کرنے آئے تھے تو کیا ان کے لیے ہماری محبتوں میں کوئی کمی تھی ۔
اس لئے جاوید صاحب آپ کی یہ بات تو بلکل فضول ہے کہ ہندوستان میں پاکستانی فنکاروں کی پذیرائی ہوئی اور پاکستان میں بھارتی فنکاروں کی پذیرائی نہیں ہوئی۔
جاوید اختر کی جانب سے پاکستان کے بارے میں اس توہین آمیز بیان کو بھارت کے مودی میڈیا میں تو بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے اور بھارتی انتہا پسندوں کو اس بیان کے بعد جاوید اختر کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کرنے کا سرٹیفیکٹ مل گیا ہے ۔
فیض میلے میں جاوید اختر کو پاکستان میں ایسے وقت میں مہمان مدعو کیا گیا جب دونوں جانب تعلقات پر شدید سرمہری کی برف جمی ہوئی ہے ۔
پاکستان بھارت کے ان تلخ اور سنگین تعلقات کی وجہ بھارت کا پاکستان کے بارے میں وہ معتصبانہ اور نفرت انگیز رویہ ہے جس میں مودی سرکار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کے بعد سے اضافہ ہی ہوا ہے ۔
سنا تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور اپنے آپ کو دانشور کہلانے والے معاشروں میں محبت ،امن برداشت تحمل اور رواداری کے علمبردار ہوتے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا جاوید اختر صاحب امن کی بات کرتے فاصلوں کو مٹانے کی بات کرتے پاکستانیوں کی اس ادا کو سراہتے کہ انہوں نے جاوہد صاحب کو اتنی عزت دی ۔ ان کے ہاتھ چومے تعظیم اور تکریم میں ان کے گھٹنوں اور پیروں کو چھوا ۔
لیکن شاید کہیں نہ کہیں جاویدصاحب کے ذہن میں یہ ہوگا کہ کہیں شیوسینا اور آرایس ایس جو بھارت میں گلی گلی کتوں کے طرح مسلمانوں کی بو سونگھتی پھرتی ہے ۔ ان کو اپنے انتقام کا نشانہ نہ بناڈالے تو انہوں نے وہی کیا جس کا انتظار بھارتی میڈیا کررہا تھا کہ پاکستان میں مہمان بن کر اپنے ہی میزبان کی تضحیک کرو اور اپنے ملک کی ٹاپ ہیڈلائن بن جاؤ۔
بھارت کا پاکستان کے خلاف پروپگینڈہ وارفئیرساری دنیا کے سامنے آچکا ہے کس طرح پاکستان کے امیج کو خراب اور بدنام کرنے کے لیے مودی سرکار نے اربوں روپے خرچ کیے ہیں ۔
جاوید اخترصاحب سے ایک سوال تو بنتا ہے کہ انہیں ممبئی میں ہونے والاحملہ تو یاد ہے اور اس کا الزام انہوں نے ریاست پاکستان پر لگادیا ۔
لیکن کیا یہ ایک دانشور ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ وہ ذرا مودی سرکار کے کارناموں کے حوالے سے بھی کچھ عرض کردیتے ۔
یہ حوصلہ یہ جگرا لاتے اورمانتے کہ بھارت کا پاکستان میں ماضی اور حال میں کس طرح سے دراندازی ، بدامنی پھیلانے اور دہشتگردی کی وارداتوں میں کردار رہا ہے ۔
کیا اس بات سے جاوید اختر انکار کرسکتے ہیں کہ بلوچستان میں بھارتی فنڈنگ سے چلنے والے نیٹ ورک موجود ہیں ۔ کیا وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں کہ بھارتی ایجنسی را کے ایجنٹس بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردانہ کاروائیوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں ۔
کیا جاوید اختر کو علم نہیں ہے کہ کلبھوشن یادیو بھی پاکستان میں ناروے یا پیرس سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ بھی تو بھارتی سرزمین سے آیا تھا ۔
کیا اس نے اپنے جرائم کا اعتراف نہیں کیا ؟کیا اس نے نہیں ماناتھا کہ اسے پاکستان میں دہشت گرد ی کی کاروائیوں کو منظم کرنا تھا ۔
جاوید اختر صاحب کا تو آتش جوان تھا اس وقت تو یادداشت کی خرابی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ مکتی باہنی کا وجود کہاں اور کیسے آیا تھا ۔
سانحہ اکہتر میں بھارت کا کردار تو تاریخ کے پنوں میں رقم ہے اور جاوید صاحب نے تو یہ تاریخ اپنی آنکھوں کے سامنے بنتی دیکھی تھی ۔
کیا جاوید صاحب پینسٹھ میں اور اکہترمیں پاکستان کے خلاف ہونے والی بھارتی فوجی جارحیت سے انکار کرسکتے ہیں ۔
پلوامہ کے جھوٹے ڈرامے کے بعد کیا بھارتی ائیرفورس نے پاکستان کی سرحدوں میں گھسنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔سال 2019 تو ابھی کچھ سال پہلے کی بات ہے جب بھارتی پائلٹ ابھینندن کو پاکستان فضائیہ نے گرفتار کیا تھا ۔
ظاہر ہے وہ بھی پیرس یا ناروے سے نہیں آیا تھا وہ بھی بھارت سے آیا تھا جس کو ویر چکرا دیکر ہوری دنیا میں اپنی جگ ہنسائی بھارت نے کرائی تھی ۔
گلے توہمارے دلوں میں بھی بہت ہیں آپ کو برا نہیں ماننا چاہیے۔
جاوید صاحب کو اپنے ہی ملک بھارت میں ہونے والی ریاستی دہشت گردیوں پر سوال اٹھاتے تو میں نے کبھی نہیں دیکھا ہاں ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا جیسا فلمی گیت لکھنے والا دیکھا ہے جس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے وہ خیال ہے کسی اور کا اور اسے مانگتا کوئی اور ہے ۔
کیا جاوید صاحب کو گولڈن ٹیمپل سانحہ بھول گیا ہے کیا اس واقعے کے سہولت کار آج تک ان کے ملک میں چلتے پھرتے نہیں ہیں ۔ کیا سکھوں کے قتل عام کو ان کے لیے ان کی ریاست کے لیے بھولنا اتنا ہی آسان ہے ۔ گلے تو وہاں پر بسنے والے سکھوں کے بھی بہت ہونگے ۔
کیا کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل بنانے کے کارنامے پر جاوید صاحب دو لفظ مذمت کے نہیں کہہ سکتے تھے ۔
کیا کشمیر کا کوئی دن کوئی رات کسی جوان کی لاش کے بغیر ختم ہوتا ہے۔
کیا جاوید صاحب کو کشمیر کے روتے ہوئے بچوں اور سسکتی ہوئی عورتوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتی ہونگی۔
لیکن کیا ہے نا مصلحت پسندی بھی ضروری ہے ۔
کیا بھارتی فوج کی وحشت اور بربریت کی کشمیریوں کے خون اور عزت سے لکھی جانے والی زندہ داستانیں جاوید صاحب جیسے پڑھے لکھے انسان نے نہیں دیکھی ہونگی ؟؟۔
جاوید صاحب کشمیری بھی جب اپنے قاتلوں آپ کے سامنے چلتے پھرتے آس پاس دیکھتے ہیں تو ان کا گلہ بھی بنتا ہے ۔
بھارت میں مسلمانوں کی ہی نہیں باقی اقلیتوں کی زندگی بھی اجیرن ہے کیا اس پر کوئی آواز اٹھائی ہے۔ کیا کبھی ان کے کسی جلسے میں شرکت کی ہے یا کبھی اپنے ملک کے مظلوموں کی خاطر جیل گئے ہیں ۔
کیا جاوید صاحب اس بات سے انکار کرینگے کہ بھارت میں راہ چلتے بے گناہ مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنادیا جاتا ہے اور قتل تک کیا جاتا ہے ۔
کیا جاوید صاحب ماننے سے انکار کردینگے کہ بھارتی فلم پٹھان کو اس لیے انتہا پسند ہندووں کے غصے کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا کیونکہ اس کا ہیرو ایک مسلمان ہے ۔
کیا جاوید صاحب اس سچ کو تبدیل کرسکتے ہیں کہ بھارتی فلموں کے مسلمان اداکاروں کو ممبئی میں میں کوئی کرائے کا مکان یا ملکیت کی اجازت دینے میں بھی بہت زیادہ حیلوں بہانوں سے کام لیا جاتا ہے ۔
یہ تو ممکن ہے نہیں کہ دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی نظرآجائے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہ آئے ۔
مجھے یقین ہے جاوید صاحب نے بھارت کی نئی تاریخ جو انتہاپسندی کے قلم سے لکھی گئی ہے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہوگی بلکہ مزید اس کے پنوں میں اضافہ ہوتے دیکھ رہے ہونگے ۔
پاکستان کی فوج کو جو چومکھی جنگ کا سامنا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ تو بھارت ہے ۔
اس لیے جاوید صاحب آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ آپ پاکستان میں ہمارے مہمان بن کر آئیں اور ہمارا ہی دل توڑ کر چلے جائیں ۔
کیونکہ دل تو ہمارا بھی خوش نہیں ہوتا یہ کہتے ہوئے کہ پاکستان میں بھی دہشت گرد ناروے یا پیرس سے ٹہلتے ہوئے نہیں آتے بلکہ بھارتی ریاست کی پشت پناہی سے آتے ہیں ۔
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
Error: Could not authenticate you.
Your email address will not be published. Required fields are marked *