pakistanday 1 808x454

ایک قوم ,ایک منزل,ایک نشان ۔۔23 مارچ یادگار دن

83 views

23 مارچ 1940 ہماری تاریخ کا وہ سنہرا دن ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، اس دن نے مسلمانان ہند کی تقدیر بدل دی تھی ۔

23مارچ 1940 ء کو لاہور میں واقع ’’منٹو پارک‘‘ موجودہ ’’اقبال پارک‘‘ میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور 23 مارچ ہی کے دن 1956 ء میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا.

23 مارچ کی تاریخی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان منانے کا اعلان سرکاری طور پر کیا گیا، اس تاریخی دن کو منانے کیلئے پورے پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

23 مارچ 1940 ء کو قائد اعظمؒ کی زیر صدارت منظور کی گئی قرارداد پاکستان نے تحریک پاکستان میں نئی روح پھونک دی تھی جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا.

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش کی گئی قرار داد کو اس وقت ’’قرار داد لاہور‘‘ کا نام دیا گیا تھا جس کو دشمنان اسلام و پاکستان نے طنزیہ طور پر ’’قرار داد پاکستان‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا.

اسی دن سے قرار داد لاہور ، قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہو گئی،اور مسلمانوں نے اس نئے نام یعنی ’’قرار داد پاکستان‘‘ کو بخوشی قبول کر لیا۔

تاریخی پس منظر

برصغیر میں فروری 1937 ء کے انتخابات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہندو بنیوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے گرد معاشی، سیاسی، سماجی و معاشرتی گھیرامزید تنگ کرنا شروع کر دیا تھا.

ذات پات، اونچ نیچ اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہندو بنیوں نے نہ صرف مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی تھی بلکہ دیگر اقلیتوں جن میں عیسائی وغیرہ بھی شامل تھے ان کا جینا بھی دو بھر ہو گیا تھا.

ایسے حالات میں مسلمانوں کو اپنی سماجی، ثقافتی، سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور معاشی روایات کو پروان چڑھانے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا اور یہ دو قومی نظریے کی انتہا تھی، مزید یہ کہ اقتدار کے نشے میں مست کانگریسی حکومت نے ہندو اکثریت کو رام کرنے کے لیے انتہاپسند فیصلے کیے۔

Authentic' Vande Mataram Library aims to challenge Sheldon Pollock's 'foreign' one

ندے ماترم جیسے مسلم مخالف ترانے کا انتخاب انہی میں سے ایک فیصلہ تھا کہ سبھاش چندر بوس، کانجی دوارکاداس اور خود رابندرناتھ ٹیگور روکتے ہی رہ گئے۔

سبھاش کے بھائی سرت چندربوس کے ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ پوتے سوگاتا بوس نے  اپنے چچا کی سوانح میں ٹیگور کے گاندھی کے نام خطوط بھی چھاپے ہیں جس میں بندے ماترم کو مسلمان مخالف گیت قرار دیتے ہوئے ٹیگور نے اسے اپنانے سے منع کیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ مشہور تاریخ دان کے کے عزیز نے تو کانگریسی وزارتوں کی قراردادوں اور فیصلوں پر مشتمل دو جلدوں میں مستند کتاب بھی لکھی ہے جو ایسے ہی ناعاقبت اندیش فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ تو یہ وہ سیاست تھی جو 23 مارچ 1940 کا جواز مہیا کرتی ہے۔

23مارچ 1940 ء کی قرار داد

23مارچ 1940 ء کی قرارداد کی تیاری میں اس امر کو خاص طور پر توجہ کا مرکز بنایا گیا تھا کہ قرار داد میں کہیں بھی کوئی کمی یا خامی نہ رہ جائے .

جس کا فائدہ دشمن عناصر اٹھائیں اس مقصد کیلئے بہت سے عبقری، دانشور اور قانونی ماہرین کو قرار داد کے متن کی تیاری میں شامل کیا گیا تھا .

لیکن ہندوؤں کی کینہ پرور لیڈر شپ ایک جامع اور مکمل قرار داد پر تنقید کرنے سے باز نہ رہ سکی .

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے قرار داد کی تیاری سے لیکر تمام معاملات بخیر و عافیت طے پا گئے، آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے 22,23,24 مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا.

جس میں تاریخی اہمیت کی حامل یہ قرار داد لاہور پیش کرنا تھی جو بعد میں چل کر قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔

21 مارچ 1940 ء کا قائد اعظم محمد علی جناحؒ فرنٹیئر میل کے ذریعے لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے جہاں لوگوں کا جم غفیر آپ ؒ کے شاندار استقبال کیلئے موجود تھا اور تاریخ بتاتی ہے کہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی.

مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اور گرد و نواح کے تمام علاقے فلک شگاف نعروں سے گونج رہے تھے۔

Timeline: History of Pakistan and India Independence – The TRUTH SOURCE

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اپنے ضروری معاملات نمٹانے کے بعد جب جلسہ گاہ پہنچے تو انہوں برجستہ تقریر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت کے میڈیا کے مطابق قائد اعظم ؒ نے تقریباََ 100 منٹ پر مشتمل شاندار تقریر کی جس کو سن حاضرین جلسہ دم بخود رہ گئے۔

23rd March special: The resolutions after the Resolution - DAWN.COM

قائداعظمؒ نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے جداگانہ قومیتی وجود کو حقیقی فطرت قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’ہندوؤں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ اسلام اور ہندوازم مذہب کے عام مفہوم ہی نہیں بلکہ واقعی دو جداگانہ اور مختلف اجتماعی نظام ہیں اور یہ محض خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم بن سکیں گے‘‘

بالآخر وہ وقت آن پہنچا کہ وزیراعظم بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کرنے کے بعد اس کی حمایت میں تقریر بھی کی جس میں انہوں نے بنگال اسمبلی میں اپنی ایک تقریر کا حوالہ بھی دیا اور یہ ثابت کیا کہ فرزندانِ توحید کی آزادی کی صرف یہی ایک صورت ہے۔

 اجتماعی طور پر تمام مسلمان ایک قوت اور ایک تحریک کا روپ دھارے ہوئے تھے۔ باہمی اختلافات اور ایک دوسرے پر کیچڑ اْچھالنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا.

قرار داد کی پیشی اور منظوری کے بعد مسلمان ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ ایک روشن صبح کی جانب اپنا سفر شروع کرنے جا رہے تھے جس کی سربراہی تاریخ کے عظیم ترین لیڈر حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کر رہے تھے.

یہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی بصیرت و حالات کو دیکھتے ہوئے بہترین حکمت عملی اور خدائے بزرگ و برتر کا فضل و کرم تھا جس نے مسلمانوں کیلئے بروقت ایک آزاد ، خود مختار مملکت خدادا پاکستان قائم کرنے میں حقیقی کردار ادا کیا تھا۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی مصلحتوں اور آپس کی ریشہ دوانیوں کو بھلا کر پھر سے متحد ہو جائیں.

آج 76 سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمیں اپنے اندر 23 مارچ 1940 ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور تجدید عہد وفا کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور قائد اعظم ؒ اور دیگر قومی رہنماؤں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگا۔

و قومی نظریہ جو موجودہ حالات میں دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے اسے بچانا ہوگا.

دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا، ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی نظریے کو سچ ثابت کرکے دکھایا تھا.

ہمیں قرار داد پاکستان کی روشنی میں مملکت خدادا پاکستان کو پروان چڑھانے کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر سر ڈاکٹر محمد علامہ اقبال ؒ کا شاہین بننا ہوگا۔

تاکہ ہم بھی با آواز بلند کہ سکیں پاکستان زندہ آباد انقلاب زندہ باد خدا تعالیٰ پاکستان اور پاکستانی قوم کا حامی و ناصر

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *