راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
شارجہ میں پاکستان کے خلاف افغانستان کی2-1سے کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلی بار کسی صف اول کی ٹیم کے خلاف ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز جیتنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔یہ بالکل الگ بات ہے کہ افغانستان سے آج تک آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، سری لنکا اور ان کے پکے دوست بھارت نے کوئی دو فریقی سیریز کھیلی ہی نہیں۔پاکستان کی حالیہ سیریز بھی آسٹریلیا کے منع کرنے کے بعد متبادل کے طور پر ارینج کی گئی تھی۔اس سیریز سے دونوں ممالک نے کیا حاصل کیا، آئیں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان نے صف اول کے پانچ کھلاڑیوں یعنی ریگولر کپتان بابر اعظم، محمد رضوان، فخر زمان، شاہین آفریدی اور حارث رؤف کوآرام کروا کے اپنی ریزرو ٹیم میدان میں اتاری، افغانستان کے لئے یہ کامیابی ان کے ریکارڈز اورحوصلے بلند کرنے کے لئے بہت آگے تک جائے گی۔
البتہ پاکستان کی جانب سے کچھ عوامل پر ایسا سوالیہ نشان لگا ہے کہ ذکر کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔یاد رہے کہ ماضی قریب میں افغانی کھلاڑیوں اور شائقین کا رویہ کسی بھی آئی سی سی یا ایشین ایونٹ میں پاکستانیوں کے ساتھ اچھا نہیں رہا۔
اس ضمن میں پی سی بی نے باضابطہ طور پر آرگنائزرز اور افغانستان کرکٹ بورڈ سے شکایت بھی کی ہے۔افغانی شائقین بھی سوشل میڈیا پر بھارتیوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔
ایسے میں اگر آسٹریلیا نے ان کے ساتھ سیریز منسوخ کی تھی تو پاکستان کو آخر کیا پڑی تھی کہ ان کا نقصان پورا کرنے جا پہنچے۔اتنا خیال تو کبھی ان کا بھارت نے نہ کیا جن کے ساتھ دوستی کے وہ گن گاتے پھرتے ہیں۔
افغان کھلاڑیوں کی اکثریت کے پاکستان میں پیدا ہونے اور ابتدائی لیول کی کرکٹ پاکستان میں ہی کھیلنے کے بعد پاکستان سے نفرت کا جو اظہار وہ فیلڈ پر کرتے ہیں، وہ اتنا ہی حیرت انگیز ہے جتنا بدلے میں ان کو پی ایس ایل میں بڑھ بڑھ کے مواقع ملنا۔
اس افغان پرست پالیسی سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کیا حاصل ہورہا ہے، یہ وہی بتاسکتے ہیں۔
افغانستان کے خلاف گزشتہ چند میچز میں پاکستان کو ہدف کے تعاقب میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔اسکرپٹ ان میچز کا یہی تھا کہ افغانی بولنگ نے ان کے لئے زندگی مشکل کردی اور شکست تقریباً سامنے نظر آنے لگی۔
تب ہی عماد وسیم، آصف علی اور نسیم شاہ کے ایک دو جارحانہ اسٹروکس نے پاکستان کو فتح دلوائی۔یہی میچز افغان کھلاڑیوں اور شائقین کی بدتمیزی کا بھی موجب بنے
تاہم شارجہ کی اس سیریز کے پہلے دو میچز میں کپتان شاداب خان نے یہ نوبت آنے ہی نہیں دی اور ٹاس جیت کے پہلے بیٹنگ کرنے کی ٹھانی۔نئی بیٹنگ لائن اپ کے ساتھ یہ فیصلہ تب تو سمجھ میں نہ آیا لیکن یہ دونوں میچز اور سیریز ہارنے کے بعد شاداب کی پریس کانفرنس نے کافی کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کردیا۔
ان کے مطابق یہ سیریز بابر اور رضوان کی عزت کروانے میں کامیاب ثابت ہوگی جن کے اوپر ہر وقت اسٹرائیک ریٹ کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نئے کھلاڑی پریشر کا سامنا کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لئے ہمیں سینئرز کی ضرورت ہے۔
شاداب کا یہ بیان اس ایجنڈے کی تائید کے سوا اور کچھ نہیں کہ ٹیم کی ہار جیت ایک طرف، سینئرکھلاڑیوں کی قدر ومنزلت کم نہیں ہونی چاہئے اوران کو ان کی مرضی کے خلاف آرام کروانے کے بارے میں سوچنا بھی منع ہے۔
Shadab Khan 🗣️🗣️, "Nation Will Respect Babar, Rizwan More After This Series" ❤️🔥#BabarAzam #PakistanCricket #Rizwan #PAKvNZ #PakvsAfg pic.twitter.com/OPiLjezhJJ
— Umer Farooq (@UmerFarooq12101) March 27, 2023
نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے کپتان کا ان کو شکست کا ذمہ دار ٹھہرا دینا انتہائی مایوس کن ہے کیونکہ کم اسکور کے باوجود پاکستان پہلے دونوں میچز جیت سکتا تھا اگر شاداب خود کپتانی میں موثر فیصلے کرنے میں کامیاب ہوتے۔
مثلاً پہلے میچ میں دفاعی فیلڈ سیٹنگ اور دوسرے میچ میں عماد وسیم سے صرف ایک اوور کروانا۔اسی میچ میں سب سے مہنگے بولر نسیم شاہ سے چار اوور کرواکے شاداب نے سیریز اور میچ ہاتھ سے گنوایا جس میں کسی نوجوان کھلاڑی کا کوئی قصور نہیں تھا۔
معلوم نہیں کہ شاداب یہاں قومی ٹیم کی قیادت کے لئے آئے تھے یا اپنے دوستوں کی کھوئی ہوئی عزت کی بحالی کے لئے لیکن پہلے دو میچز ہار کے ان کا کام ہوگیا توآخری میچ پاکستان یک طرفہ طور پر جیت بھی گیا تاکہ شاداب کی ساکھ بھی قائم رہے۔
اگر نوجوان کھلاڑی پریشر لینے میں ناکام تھے اور سینئرز کو آرام کروانے کا فیصلہ غلط تھا تو تیسرے میچ میں یک طرفہ کامیابی اسی ٹیم کے ذریعے کیسے حاصل ہوگئی؟ اگر یہ ٹیم ہارنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کے قابل نہیں تھی تو یہ میچ اتنا آسانی سے اس کے کھاتے میں کیسے آگیا؟
ایسے فیصلہ کن بیانات دینے کا فائدہ کیا جو اگلے چوبیس گھنٹے میں غلط ثابت ہو جائیں۔ یقیناً پاکستانی ٹیم مینجمنٹ اور ان کے حاری مواری صحافیوں اور ماہرین کو بھی کچھ بولنے سے پہلے کچھ سوچنا چاہئے۔رہی بات سینئرز کو ملنے والی عزت کی تو یہ کہانی بھی سمجھ میں نہیں آئی۔
بابر اور رضوان کے اسٹرائیک ریٹ پر صرف پاکستانی نہیں بلکہ دنیا تنقید کرتی ہے۔واقعتا اپنے ہم عصر کھلاڑیوں میں جو ان کے ساتھ ٹاپ ٹین رینکنگز میں شامل ہوتے ہیں، انہی دونوں کا اسٹرائیک ریٹ سب سے کم ہے اور اکثر یہی چیز فیصلہ کن بھی ثابت ہوتی ہے
مسلسل پاور پلے کا فائدہ اٹھانے اور اوپنربنے رہنے کے بعد فتح اور شکست کی ذمہ داری بھی انہی دونوں کو لینی ہوگی اوراس ضمن میں کسی بھی قسم کی تنقید کو تنقید سمجھا جائے، تلوار یا بے عزتی نہیں
ویسے بھی بابر اعظم کو ستارہء امتیاز سے نوازا گیا ہے اور شاہین آفریدی نے بطور کپتان لاہور قلندرز کے لئے پی ایس ایل دو بار جیتا ہے۔رضوان نے ابھی ابھی ملتان سلطانز کو فائنل میں پہنچا کر تعریف سمیٹی ہے۔ اس سے زیادہ عزت کی توقع اگر ہے تو ہمیں بھی سمجھا دیں کہ وہ کیا ہوتی ہے؟
At 28, Babar Azam becomes the youngest person to receive Sitara-e-Imtiaz ✨
Read more: https://t.co/F01sdezhgy pic.twitter.com/pt3mGzue6H
— ESPNcricinfo (@ESPNcricinfo) March 23, 2023
یہ فلسفہ کہ سینئر کھلاڑیوں کو آرام نہیں کروانا چاہئے انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ دنیا کی ہر بڑی ٹیم اپنی ریزرو بنچ آزمانے اور نئے ٹیلنٹ کو موقع دینے کے لئے سینئرز کو آرام دیتی ہے اور باقیوں کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔
اس ضمن میں وہ کامیابی اور ناکامی دونوں سے دوچار ہوتی ہیں لیکن نوجوانوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرتی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان سے مقابلے کے لئے بھی کئی ٹیموں نے اپنی بی ٹیموں کوبھیجا تھا، یہ اور بات کہ ہم ان کے ریزرو کھلاڑیوں کے خلاف بھی اپنی مین ٹیم اتار کے نتائج بہتر نہیں کرپاتے
یہ پاکستان کی ٹیم ہے اور اس کی عزت کسی بھی سینئر سے سینئرکھلاڑی کی عزت یا مستقل کھیلتے رہنے سے زیادہ اہم ہے۔
حالیہ سیریز میں جہاں نئے کھلاڑیوں صائم ایوب، احسان اللہ اور زمان خان کواپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع مل ہی گیا، وہاں یہ بھی ثابت ہوا کہ محمد حارث، اعظم خان اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی سطح پر عبداللہ شفیق کو ابھی اور محنت کی ضرورت ہے
Shades of Saeed Anwar in Saim Ayub #HBLPSL8 – #SportsCentral – #Shorts MI2A pic.twitter.com/Sn9hDhlRAv
— sport central (@TahirrSport) March 29, 2023
کوئی ناراض ہو یا طعنے دے، لیکن اعظم خان اس فٹنس کے ساتھ بین الاقوامی کرکٹ کے لئے بالکل مناسب نہیں ہیں۔ دوسری جانب بار بار یہ کہنا کہ پی ایس ایل کا ٹیلنٹ قومی ٹیم میں نہیں چل سکتا، ایک بے حد بے تکی بات ہے۔
شاداب، شاہین، فخر زمان اور کافی کھلاڑی پی ایس ایل کے بعد ہی عالمی کرکٹ کے منظر عام پر آئے ہیں۔ فہیم اشرف بھی اوسط بین الاقوامی ریکارڈ کے باوجود ہر پی ایس ایل کے بعد قومی ٹیم میں سلیکٹ ہوجاتے ہیں۔ آصف علی اور حیدر علی بھی پی ایس ایل کی کامیابیوں کے بعد ہم پر مسلط کیے گئے تھے۔
اب قومی ٹورنامنٹس کے بعد اگر پی ایس ایل کو بھی سلیکشن کا پیمانہ بنانے سے انکار کردیا گیا تو کھلاڑی کہاں سے آئیں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے خلاف سیریز ہم کنڈیشنز کو سمجھ نہ پانے اور پہلے دو میچز میں ناقص کپتانی کی وجہ سے ہارے ہیں۔ یہ دونوں باتیں کسی کوتاہی کا نتیجہ تھیں یا کسی ایجنڈے کا حصہ، یہ فیصلہ تو ہم پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں۔
آج کل کی کرکٹ اعداد و شمار کی کرکٹ ہے۔ اعداد و شمار کا ذکر کرنا اگر بے عزتی یا ناقدری کے زمرے میں آتاہے تو آئندہ نشست میں ہم کچھ اعداد وشمار آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ عزت بے عزتی کا فیصلہ بھی آپ نے ہی کرنا ہے۔
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
Error: Could not authenticate you.
Your email address will not be published. Required fields are marked *