babarazam 808x454

کیابابر اعظم واقعی ریڈ لائن ہیں؟

61 views

سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی میں ریڈ لائن کی اصطلاح استعمال ہونا عام بات ہے۔عام طور پر ریڈ لائن اس فرد یا مقام کو کہا جاتا ہے جس کو چیلنج کرنے پر کوئی سیاسی پارٹی یا پریشر گروپ ہنگامہ مچانے کا الٹی میٹم دے دیتے ہیں۔ کرکٹ کے شعبے میں ریڈ لائن کی اصطلاح اگر بورڈ یا حکومت کی طرف سے ہو تو سمجھ آتا ہے لیکن  کھلاڑیوں یا شائقین کی طرف سے اس کا استعمال معنی خیز ہے۔”بابراعظم ہماری ریڈ لائن ہے“اس ہیش ٹیگ کا مقصد کیا ہے؟  اگر بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹایا جاتا ہے تو کیا ہوگا؟  یہ بہت گہری بات ہے۔

عدنان حسن سید

پچھلی بار ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اب اعداد وشمار کی روشنی میں کچھ گفتگو کریں گے۔ اس ہیش ٹیگ نے وہ موقع ہمیں فراہم کر ہی دیا۔ بات یہ ہے کہ بابراعظم ہوں یا کوئی اور،  کوئی بھی کپتان یا کھلاڑی اپنی ٹیم سے،  اپنے سسٹم سے یا کرکٹ سے بڑا نہیں ہوتا۔

اگر اس کی بحیثیت کھلاڑی یا بحیثیت کپتان کارکردگی متواتر خراب ہو تو اس کو تبدیل کرنے یا آرام دینے کا بورڈ کو حق حاصل ہے۔کسی فرد یا گروپ کی اتنی اجارہ داری نہیں ہونی چاہئے کہ اسے ریڈ لائن کہا جائے۔

مزید پڑھیں:

پاک افغان سیریز سے کیا ثابت ہوا

یہ نہ صرف کرکٹ بورڈ بلکہ ملک و قوم اور کرکٹ کے کھیل سے بغاوت کے مترادف ہے۔گزشتہ چند ماہ کے واقعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ بابر اعظم اور ان کے حامیوں کا ٹولہ ٹیم میں وہ عنصر پیدا کرچکا ہے جسے اجارہ داری یا عرف عام میں خلافت کہا جاتا ہے۔

ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی گروپ خود کو ٹیم کی مجبوری سمجھے اور اسی بلیک میلنگ کی بنیاد پر سلیکشن اور دیگر معاملات میں بھی اپنی چلانے کی کوشش کرے۔پاکستان کرکٹ کی تاریخ ایسی کئی خلافتوں سے بھری پڑی ہے اورشاندار کیرئیرز کے باوجود خلیفوں کا انجام برا اورپاکستان کا نقصان ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:

پاکستان کرکٹ بورڈ کو بیٹنگ بولنگ فیلڈنگ اور اضافی کپتان کی ضرورت ہے

گزشتہ سال انگلینڈ کے خلاف ہوم ٹی ٹوئنٹی سیریز،  ایشیا کپ،  نیوزی لینڈ میں سہ فریقی سیریز اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سلیکشن کے معاملے میں جو ہٹ دھرمی دکھائی گئی،  اس سے صاف لگ رہا تھا کہ خلیفوں کا گروہ باہر سے کسی کو سلیکٹ یا کامیاب نہیں ہونے دے گا۔یہی وجہ تھی کہ سینئر کھلاڑی شعیب ملک اور عماد وسیم باہر سے تماشا دیکھتے رہے اور آصف علی،  خوشدل شاہ اورحیدرعلی جیسے کھلاڑی مستقل فیلڈ پر تماشا بنتے رہے۔

مزید پڑھیں:

پی سی بی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

بابر اعظم کی ذہین کپتانی کی ایک مثال صرف یہ تھی کہ کبھی وہ کامیاب ترین اسپنر سے اگلے میچ میں ایک اوور بھی نہیں کرواتے تھے اور کبھی میچ کا آخری اوور دے دیتے تھے۔ ایسے میں پی سی بی چئیرمین کی تبدیلی اور شاہد آفریدی کی قیادت میں نئی سلیکشن کمیٹی کے قیام نے بابر کی قیادت پر سوالیہ نشان لگائے تو ان کے دوستوں نے ٹوئٹر پر ”سوچنا بھی منع ہے“ کا ٹرینڈ شروع کردیا

مزید پڑھیں:

پاکستان کرکٹ ٹیم واقعی سوچنا بھی منع ہے

بعد میں ان کو اس سے مکرنا پڑا کیونکہ یہ کام انہوں نے خود نہیں،  بلکہ ان کے سوشل میڈیا ایجنٹ نے کیا تھا۔اس کے بعد افغانستان کے خلاف سیریز میں جب بابراعظم،  محمد رضوان،  شاہین آفریدی،  فخر زمان اور حارث رؤف کوآرام دیا گیا تو ایسا لگا جیسے قیامت آگئی ہو۔

ایسا کبھی ہوا ہی نہ ہو کہ کسی سیریز میں سینئرز کو آرام کروایا جائے۔کچھ سابقہ کھلاڑیوں، صحافیوں اور شائقین نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسا شور مچایا کہ جیسے ہر میچ کھیلنا سینئرز کا پیدائشی حق ہو۔افغانستان کے خلاف سیریز ایک دو سے ہار گئے لیکن دوسرے میچ میں واضح طور پر لگ رہا تھا کہ کپتان شاداب خان سیریز کو زندہ رکھنے اور جیتنے کے موڈ میں نہیں ہیں

مزید پڑھیں:

بابر اعظم کس کو جوابدہ ہیں؟

۔پریس کانفرنس میں ان کا زور بھی اسی بات پر تھا کہ اب بابر اور رضوان کی قدر ہوگی۔گویا نئے کھلاڑیوں سے توقعات نہیں رکھنی چاہئے تھیں۔ پھر ایسا معجزہ ہوا کہ اسی نئی ٹیم نے تیسرا میچ بآسانی جیت لیا۔گویا مسئلہ صرف کنڈیشنز اور کپتانی کا تھا،  ٹیم سلیکشن کا نہیں تھا۔

پی سی بی چئیر مین نجم سیٹھی نے بارہا اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ کا کپتان برقرار رکھا جارہا ہے لیکن ان کی کپتانی زیر جائزہ ہے۔نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے بعد فیصلہ ہوگاکہ وہ عالمی کپ میں پاکستان کی قیادت کریں گے یا نہیں۔

اسی صورت حال میں ”بابر ہماری ریڈ لائن ہے“ کا ہیش ٹیگ جیسے سوشل میڈیا پر ابل پڑا ہے۔یہ سازش کو روکنے کا رد عمل ہے یا بذات خود ایک سازش،  یہ آنے والا وقت بتائے گا۔تینوں فارمیٹس میں بابر اعظم کی کپتانی پر تبصرہ ہم آنے والے دنوں میں کریں گے۔

ٹی ٹوئنٹی میں ان کی قیادت پر ہم کافی روشنی ڈال چکے ہی ہیں،  آج اعداد و شمار کی روشنی میں یہ دیکھتے ہیں کہ وہ بحیثیت بیٹسمین ٹی ٹوئنٹی میں کیا اتنے موثر ہیں کہ ان کابیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا یا قیادت سے ہٹانا گناہ سمجھا جائے۔

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز کی عالمی رینکنگ میں بابر چوتھے نمبر پر ہیں۔ ٹاپ ٹین بیٹسمین بمع اسٹرائیک ریٹ کچھ اس طرح ہیں:

 سوریا کمار یادیو 175.76،  محمد رضوان126.62،  ڈیون کانوے130.30،  بابراعظم127.80،  ایڈئین مارکرم146.9،

رائلی روسو161.0،  محمد وسیم (متحدہ عرب امارات)144.25،  ڈیوڈ ملان131.2،  ایرن فنچ150.4،  جوز بٹلر144.07

واضح رہے کہ یہ سب ٹاپ آرڈر بیٹسمین ہیں،  نچلے نمبرز پر آنے والے پاور ہٹرز نہیں ہیں اور ان سب میں بابر اوررضوان کا اسٹرائیک ریٹ سب سے کم ہے

ڈیوڈ ملان اور ڈیون کانوے کو ہم ان کے آس پاس کہہ سکتے ہیں لیکن ان کی ٹیموں میں مڈل آرڈر اور لیٹ آرڈر کے دیگر بیٹسمین فنشر کا رول ادا کرتے ہیں۔پاکستان کی ٹیم میں بابر اور رضوان میں سے کسی ایک کو پاور پلے سے فائدہ اٹھانے اور سب سے زیادہ اوورز کھیلنے کے بعدفنشر کا کردار بھی ادا کرنا چاہئے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

یہ دونوں کریز پر اتنا ٹائم گزار چکے ہوتے ہیں کہ کسی اور کو سیٹل ہونے کا موقع نہیں ملتا اور130سے نیچے کے اسٹرائیک ریٹ والے یہ دونوں کھلاڑی بعد والوں کے لئے 200سے اوپر کا مطلوبہ ریٹ چھوڑ کے آؤٹ ہوجاتے ہیں۔

بابر اعظم کی ایک اور عادت یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی سیریز یا ٹورنامنٹ کے اہم یا فیصلہ کن میچ میں فیل ہوجاتے ہیں۔مثلاًگزشتہ سال ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ میں پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچنے کے لئے ہالینڈ کی جنوبی افریقہ پر فتح کا انتظار کرنا پڑا کیونکہ زمبابوے اور بھارت کے خلاف میچ میں بابر فیل ہوچکے تھے۔

فیل وہ جنوبی افریقہ کے خلاف بھی ہوئے تھے لیکن پاکستان میچ ڈک ورتھ لوئس پر جیت گیا تھا۔ اس سے قبل نیوزی لینڈ کی سہ فریقی سیریز کے فائنل میں بھی پاکستان کی جیت کے باوجود بابر زیادہ رنز نہیں بنا پائے تھے۔

اور اس سے ذرا پہلے انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے ساتویں اور فیصلہ کن میچ میں بابر محض چار رنز بناسکے تھے۔مزید پیچھے ایشیا کپ تک جائیں تو افغانستان کے خلاف فتح فائنل تک رسائی کے لئے ضروری تھی لیکن بابرصفر پر آؤٹ ہوگئے اور جیت کے لئے نسیم شاہ کو آخری اوور میں دو چھکے لگانے پڑے۔

پھر ایشیا کپ فائنل میں بھی بابر صرف پانچ رنز بناسکے۔اس ٹورنامنٹ میں وہ مجموعی طور پر ہی بجھے بجھے رہے۔

 اس تجزیے کا مقصد کسی بھی طرح بابر اعظم کو بطور کھلاڑی نیچا دکھانا نہیں ہے۔وہ اپنے دور کے عظیم بیٹسمین ہیں اور یہ اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا لیکن ان کے کھیل میں جو کمزوریاں ہیں وہ ان کو تاحیات کھیلتے رہنے یا قیادت کرنے کا لائسنس نہیں دیتی ہیں۔

اپنی پسند ناپسند کوٹیم کے سلیکشن پر مسلط کرنے کا اختیار بھی ان کو یا کسی اور کو حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ہم سب ایک سسٹم کے تابع ہیں اور اس کے اندر ہی ہماری پہچان اور ہماری عظمت ہے،  اس کے اوپر چھانے کی کوشش محض تباہی کی علامت ہوتی ہے۔

کوئی بھی فرد ریڈ لائن نہیں ہوسکتا لیکن سسٹم سے بغاوت ضرورر یڈ لائن ہوتی ہے۔کاش یہ بات سب کو سمجھ میں آجائے۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *