9may 720x454

نو مئی پاکستان کا ایک اور سیاہ دن جب ریڈ لائن کراس ہوگئی

79 views

نومئی کا دن پاکستان کے سیاہ دنوں کی تاریخ میں ایک اور اضافہ ہے۔ نومئی کو جس طرح مشتعل جتھوں نے پاکستان کی قومی املاک اور تنصیبات کو پر دھاوا بولا اور جس طرح ملک کے امن اور سلامتی کو داؤ پر لگایا ۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ یہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف سوچی سمجھی منصوبہ بندی سے کی گئی سازش تھی ۔

چئیرمین پاکستانن تحریک انصاف اور پاکستان کے سابق  وزیراعظم عمران خان بہت مقبول سیاسی رہنما ہیں جن کا فین کلب بہت وسیع ہے تو ان پر ذمہ داری بھی زیادہ عائد ہوتی ہے ۔

سوشل میڈیا پر کچھ عرصے میں ایک ٹرینڈ بہت وائرل ہوا تھا کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے۔ لیکن کوئی بھی شخصیت ریاست سے بڑی نہیں ہوتی ۔

ریاست کی سلامتی اس ریاست کے ہر فرد کی ریڈلائن ہوتی ہے ۔

سیاستدان ایک دوسرے سے سیاسی میدان میں اکھاڑ پچھاڑ کرتے رہتے ہیں ایکدوسرے پر الزامات بھی لگاتے ہیں اور مقدمات بھی کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کو تو مقدمات،، الزامات اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے اور وہ اس سے بری الذمہ بھی ہوجاتے ہیں ۔

چئیرمین پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان کے سابق  وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری نہ ہی کوئی انہونی تھی اور نہ ہی یہ گرفتاری غیر متوقع تھی ۔ ان سے پہلے بھی پاکستان کے بہت مقبول سیاستدان گرفتار ہوتے رہے ہیں حراستوں میں رہے ہیں اور اپنے مقدمات کا سامنا کرتے رہے ہیں ۔

القادر یونیورسٹی کیس میں اربوں روپے کے کرپشن کے الزام میں منگل کے روز چئیرمین تحریک انصاف کو رینجررز نےاسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے  قانون کے مطابق گرفتار کیا ۔

یہ گرفتاری غیرقانونی نہیں تھی بلکہ قانون کے تقاضوں کے مطابق تھی یہی توثیق اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی کردی ۔

تاہم عمران خان کی گرفتاری کے بعد جس طرح پاکستان فوج کے جنرل ہیڈ کواٹرز کے گیٹ پر ہنگامہ  کیا گیا ۔ جس طرح کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ کو جس کو جناح ہاؤس کہا جاتا ہے جس کی تاریخی اور اسٹریٹجک اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا  وہاں جس طرح سے لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیا وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے لیے قابل مذمت بھی ہے ۔

کہیں پاکستان ائیر فورس کے جہازوں کے ماڈل جلائے گئے تو کہیں ریڈیوپاکستان پشاور میں آگ لگادی گئی ۔

بجائے اس کے تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر  پرامن احتجاج اورقانونی راستہ اپناتی انہوں نے بدقسمتی سے انہوں نے ردعمل میں پر تشدد احتجاج کا راستہ اپنایا۔

اسلام آباد کراچی، فیصل آباد، کوئٹہ سمیت متعدد شہر اور مقامات میدان جنگ بن گئے۔ درجنوں موٹر سائیکلیں، گاڑیاں، پولیس وینز نذر آتش، موٹر وے جی ٹی روڈ بند ہو گیا۔

جبکہ لاہور میں کئی مقامات پر پتھرائو سے ڈی آئی جی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او سمیت کئی اہلکار زخمی ہو گئے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا۔

کئی علاقوں میں دکانیں بند ہو گئیں۔ پنجاب اور بلوچستان میں رینجرز طلب کرنا پڑی۔ خیبر پختونحوا میں 30روز کیلئے دفعہ 144نافذ کر دی گئی۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔

جب آپ اپنی قومی املاک کو اپنی افواج کو نشانہ بنائینگے توآخر کب تک مسلح افواج ردعمل نہ دیں

ملکی پچھترسالہ تاریخ نے بہت نشہب وفراز دیکھے ہیں ۔ لیکن کسی دشمن کی ہمت اور جرات نہ ہوسکی کہ وہ پاکستان کے قومی سلامتی اداروں کو اس سرزمین پر نشانہ بناسکے ۔

مگر افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ یہ کام ایک ایسی سیاسی جماعت کے کریڈٹ پر آیا جسے  اسوقت سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے ۔ جس کا فین کلب نہ صرف  نوجوان، خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر مشتمل ہے بلکہ ہر طبقہ فکر کے لوگوں میں اس کے لیے محبت اور پسنددیدگی کی سند تھی ۔

لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنی انا کی خاطر پہلے مسلسل مسلح افواج کو اپنے اقتدار چھن جانے کا ذمہ دار ٹہراتے رہو ۔ فوج کے سربراہ کو میر جعفر میر صادق اور غدار پکارو ۔ فوج کے سینیر اہلکاروں پر بغیر کسی ثبوت کے اپنی قتل کی سازش کا الزام لگادو۔

پھر  عسکری اداروں  کے خلاف مسلسل نوجوانوں کے کانوں میں زہر پھونکتے رہو ان کی برین واشنگ کرتے رہو ۔ سوشل میڈیا پر تضحیک آمیزمہم چلاکر شہدا کی توہین کرتے رہو اور پھر کہو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

لگتا تو یہ ہے کہ جی ایچ کیو ارو کورکمانڈرہاؤس لاہور کی رہائش گاہ اور پولیس اور فوجی گاڑی وں پر حملوں سے دوسری طرف کا صبر تحمل آزماکر ملک کو کسی بڑی سازش یا خانہ جنگی کا شکار کرنا تھا ۔

کیا لگتا نہیں ہے کہ یہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی فوج اور عوام کو آمنے سامنے لانے کی تھی تاکہ کوئی بڑا تصادم ہو۔

مگر افواج پاکستان نے اپنے صبر تحمل اور تدبر سے اس سازش کو ناکام بنادیا اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ساکھ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک کی خدمت کی ۔

منظرعام پر آنے والی تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کی آڈیو اور فوٹیجز کو جھٹلایا نہیں جاسکتا جہاں باقاعدہ اکسایا جارہا  ہے کہ قومی تنصیبات پر حملے  کرو اور احتجاج کو پرتشدد بناؤ تو کیا اس پر پاک فوج کا ردعمل شدید نہیں ہونا چاہیے ۔

آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز فوجی اداروں کے غم وغصے کا اظہار ہے اور اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے ۔

احتجاج کرنا پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں انارکی پھیلائی جائے۔

کیا اس کامطلب یہ ہے کہ ملک کی سب سے مقبول جماعت ہونے کی دعویدار سیاسی جماعت اپنے کارکنوں کو بجائے یہ حکم دیتی کہ وہ پرامن احتجاج کریں الٹا انہوں نے تو ملک بھر میں آگ لگانے کی ٹھان لی۔

تحریک انصاف کے پرتشدد احتجاج کے نتیجے میں ملک میں کتنے لوگ سڑکوں پر پریشانی کاسامنا کرتے رہے ۔  ملک میں جو نقصان ہوا تو ہوا جو انٹرنیشنل سطح پر اس احتجاج کی تصویر فلیش ہوتی رہی  وہ  ہمارا سر جھکانے کے لیے کافی ہیں۔

جو کام بھارت اربوں روپے خرچ کرکے نہ کرسکا وہ لمحوں میں پاکستان کی سب سے مقبول جماعت نے کر دکھایا ۔

عمران خان کی یہ پالیسی میں نہیں تو کچھ بھی نہیں صرف خودغرض طرز عمل ہی نہیں بلکہ وہ اس بھیانک حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اقتدار کی ہوس میں کس حد تک سرکشی اور من مانی کی انتہا پر جایا جاسکتا ہے۔

کیا ہمارا ملک جو ویسے ہی اندرونی بیرونی سازشوں کا شکار ہے وہ مزید کسی خانہ جنگی یا تقسیم کا شکار ہوسکتا ہے .

کیا تحریک انصاف اپنے ماتھے سے یہ داغ کبھی دھو پائیگی کہ نہ صرف انہوں نے اس ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی قانون کو ہاتھ میں لیکر ملک بھر میں آگ لگائی۔

کیا عمران خان اورتحریک انصاف نے ریڈلائن کراس نہں کی تو اسکاجواب ہے ہاں نومئی کو پاکستان تحریک انصاف نے وہ ریڈلائن کراس کی جو پچھتر سال کی تاریخ میں کوئی نہیں کرسکا

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *