web size 11 jul 23 808x454

خواتین کو بااختیار بنانا ایک اہم چیلنج ہے:پاکستان پاپولیشن کونسل

22 views

11 جولائی کو آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، یہ ایک ایسا موقع ہے جو آبادی سے متعلقہ معاملات کی اہمیت کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔

رپورٹ : فاطمہ نازش

پاکستان میں کم شرح خواندگی کی وجہ سے خواتین کو بااختیار بنانا ایک اہم چیلنج ہے اور ان اہداف کے حصول کے لئے میڈیا کے ذریعے فیصلہ سازوں تک آواز پہنچائی جاسکتی ہےعالمی یوم ابادی کے حوالے سے پاکستان پاپولیشن کونسل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا گیا ۔

اس سال جس حوالے سے آگاہی پھیلانے کا عزم کیا گیا ہے وہ خواتین کی ہر شعبہ اور معاملات زندگی میں اپنے لئے فیصلہ سازی اور خودمختیاری کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے ، اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 48 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں جبکہ 79 فیصد افرادی قوت کا حصہ نہیں ہیں بدقسمتی سے خواتین کی مجموعی آبادی میں صرف 10 فیصد عورتیں اپنی صحت کے بارے میں خود فیصلہ کر سکتی ہیں۔

سینئر ڈائریکٹر پروگرامز پاپولیشن کونسل ڈاکٹر علی میر نے کہا کہ “صنفی مساوات کے حوالے سے دیکھا جائے تو گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس 2022 کی درجہ بندی میں پاکستان نچلے درجوں پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں صنفی مساوات کی شرح بہت کم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صنفی عدم مساوات اس لئے بھی جڑیں پکڑ چکا ہے کہ ملک میں صرف 21 فیصد خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں تو وہیں سیاست میں بھی ان کی شمولیت تعداد کے حساب سے آٹے میں نمک برابر ہے جس کا ثبوت قومی اسمبلی میں خواتین کی سیٹوں کی کم شرح ہے۔

اجلاس میں ملک بھر سے شریک صحافیوں کو ان کا پیغام تھا کہ میڈیا پالیسی سازوں اور حکومتوں کو اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا لڑکیوں کی تعلیم کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے لیبر فورس میں خواتین کی شرکت اور صنفی مساوات پر آواز اٹھانا اس وقت قومی اہمیت کے حامل توجہ طلب مسائل ہیں جن پر میڈیا اور سول سوسائٹی کے کثیر الجہتی اقدامات ناگزیر ہیں۔ ڈاکٹر میر نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ بیک وقت تعلیم، صحت بشمول خاندانی منصوبہ بندی اور قومی سطح پر خواتین کی افرادی قوت میں موثر شمولیت پر توجہ دے کر ترقی کے اہداف کے حصول میں اپنا فعال کردار ادا کریں

۔پاپولیشن کونسل کی سینئر پراجیکٹ آفیسر ام ِکلثوم نے بھی خواتین کی تعلیم، صحت اور لیبر فورس کی شرکت کے اعداد و شمار کا علاقائی سطح پر موازنہ پیش کرتے ہوئے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی خبروں کے ذریعے ان مسائل پر شعوری آگاہی کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں ۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 37 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں جن کے اسکولوں میں داخلے اور ثانوی سطح تک مفت تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی خوراک، تعلیم اور صحت کی ضروریات کو پورا کرنے اور خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کےخاتمےکے لئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے سوشل اینڈ پالیسی ایڈوائزر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ پاکستانی خواتین کو مساوی مواقع فراہم کرکے اور ان کی تولیدی صحت کے حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرکے انہیں بااختیار بنانا بہت ضروری ہے تاکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو پائیدار سطح تک لا یاجا سکے اور آبادی اوروسائل میں توازن پیدا کیا جاسکے ۔

پاکستان میں کم شرح خواندگی کی وجہ سے خواتین کو بااختیار بنانا ایک اہم چیلنج ہے اور ان اہداف کے حصول کے لئے میڈیا کے ذریعے فیصلہ سازوں تک آواز پہنچائی جاسکتی ہے ۔

میٹنگ میں شریک ملک بھر کے صحافیوں نے آبادی اور وسائل میں توازن کے لئے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کیا توقع یہی کی جارہی ہے کہ دی گئی تھیم پر مسلسل آواز اٹھانے سے اس ضمن میں مثبت تبدیلی آئے گی

تاہم دوسری جانب ابادی کے مسلے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے ملک میں اس حوالے سے سیاست دانوں اور مذہبی اسکالرزکو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

تاکہ پالیسی میکرز ابادی کو کنٹرول کرنے کے جو نظام متعارف کروائیں اسے مذہبی اور قانونی طور پر بھی نافذ العمل کروایا جا سکے اور تیزی سے بڑھتی آبادی کو خواتین کی شمولیت کے ساتھ ترقی کے پائیدار اہداف کے لیے موثر طور پر استعمال کیا جاسکے _

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *