راوا ڈیسک
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
مئی 2023 میں قومی ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 18 لاکھ31 ہزار19 ہوگئی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی آبادی خطرے کی گھنٹی ہے جن کی ضروریات ملک کے محدود قدرتی وسائل میں پورا کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔
ایک طرف ضروریات دوسری طرف معاشی سنگینی ہمیں بدترین بحران دوچار کرسکتی ہے ۔
گلوبل ہنگر انڈیکس 2022 کے مطابق، پاکستان 121 ممالک میں 99 ویں نمبر پر موجود ہے۔ FAO، WFP، UNICEF، WHO اور IFAD کی 2019 کی مشترکہ طور پر شائع شدہ رپورٹ میں، یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی 20.3 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار/غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے
اقوام متحدہ اور اس کے انسانی ہمدردی شراکت داروں کی جانب سے تیار کردہ ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کو تقریباً ایک سال گزرنے کے باوجود پاکستان کو اس وقت غذائیت کے شدید بحران کا سامنا ہے
اقوام متحدہ کے دفتر برائے کوآرڈینیشن آف ہیومینٹیرین اسسٹنس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ تشویشناک بات چھوٹے بچوں میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت ہے کیونکہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ہونے والی تمام اموات میں سے تقریباً نصف کی وجہ غذائیت کی کمی ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے لیے اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے
یہ انتہائی تشویش ناک ہے کہ پاکستان میں صرف 63.1% گھرانے “خوراک کے حوالے سے محفوظ” ہیں۔پاکستان میں اس وقت زمین کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں کیونکہ زرعی اراضی کو تیزی سے رئیل اسٹیٹ بزنس کے لیے استعمال کیا جارہا ہے
جبکہ زرعی شعبہ پاکستانی معیشت میں ستون کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ شعبہ چالیس فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے
سندھ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جس کا ملکی زراعت میں تقریباً 23 فیصد حصہ ہے
محکمہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں کل 26.078588 ایکڑ اراضی ہے جس میں سے 82,76495 ایکڑ قابل کاشت ہے۔ جبکہ صوبہ سندھ میں 16.89736 ایکڑ اراضی پر کاشت نہیں کی گئی۔
سیراب زراعت سندھ کی دیہی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے – سندھ کی 77 فیصد زرعی زمین سیراب ہوتی ہے
لیکن محدود آبی وسائل کو موثر طریقے سے استعمال نہیں کیا جاتا۔
ایک اندازے کے مطابق 60-75% پانی یا تو سطحی پانی کے بخارات بننے سے یا نمکین زمینی پانی میں گرنے سے ضائع ہو جاتا ہے۔
سندھ کو پانی کی کمی کے اہم مسائل کا سامنا ہے، خاص طور پر موسم گرما کے مہینوں میں مون سون سے پہلے۔
سندھ کا زرعی شعبہ بھی 2022 کے سیلاب سے تباہ ہوا ہے، اور کسانوں کی بحالی کی ہنگامی امداد ضروری ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک، یورپی یونین، یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک کی جانب سے آفات کے بعد کی ضروریات کے جائزے کے مطابق، پاکستان میں ہونے والے کل نقصانات کا تقریباً 70 فیصد صوبہ سندھ میں ہوا۔ سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے لیے سندھ کی مجموعی ضروریات کا تخمینہ 7.9 بلین امریکی ڈالر ہے، جو تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق 4.4 ملین ایکڑ سے زائد زرعی اراضی تباہ ہو چکی ہے۔ 5.1 ملین ہیکٹر کھیتوں پر نصف ملین سے زیادہ کسانوں کی خدمت کرنے والے آبپاشی اور سیلاب سے بچاؤ کے نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ 538 سے زیادہ آبپاشی اور 234 نکاسی آب کے نظام، جو ایک اندازے کے مطابق 7,300 کلومیٹر کی نہروں کی نمائندگی کرتے ہیں، تباہ ہو چکے ہیں۔
تقریباً 90 سیلاب سے بچاؤ کے ڈھانچے بہہ گئے ہیں، جس سے زرعی اراضی اور لاکھوں گھرانے آئندہ برسات کے موسم کے لیے غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔
رہنما سندھ آبادگار بورڈ محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ میں ایسی زمین جہاں آبپاشی کا پانی پہنچ سکتا ہے سوا کروڑ ایکڑ ہے جو تینوں بیراجوں پر موجود ہے جبکہ 80 لاکھ سے ایک کروڑ ایکڑ زمین ایسی ہے جہاں پانی کی فراہمی نہیں ہوتی، کاچھو، تھانہ بولاخان میں زمین قابلِ کاشت ہے مگر وہاں آبپاشی کا پانی نہیں پہنچتاـ
محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ زراعت معیشت کے لیے اہم اس لیئے بھی ہے کہ پاکستان کی سب سی بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائیل ہو یا چاول دونوں کا خام مال زراعت پیدا کرتی ہے جس کا ملکی معیشت پر مثبت اثر ہوتا ہے
لارج اسکیل پیداوار بھی بہتر ہوتی ہے کیوں کہ زراعت براہ راست 40 فیصد لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے، 50 سے 60 فیصد دیہی آبادی کا تعلق زراعت سے ہے جس سے چیزوں کا استعمال بڑھتا ہے موٹر سائیل، گاڑیاں اور سیمنٹ اس کے علاوہ ڈائریکٹ استعمال ہونے والی چیزیں فرٹیلائیزیشن، پیسٹی سائیڈ وغیرہ
سیلاب کے بعد لوگوں کی تیار فصلیں تباہ ہو گئیں جس سے سرمایہ کاری کو نقصان پہنچا. خریف میں کپاس اور کجھور ختم ہوگئی، گنے کی فصل 20 سے 25 فیصد متاثر ہوئی جبکہ کچھ علاقوں میں 70 سے 80 فیصد فصل کو نقصان پہنچا
چھوٹی فصلیں جن میں ٹماٹر، پیاز و دیگر شامل ہیں مکمل برباد ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ کیلے کی فصل بھی تباہ ہو گئی
سیلاب سے دیہی معیشت کو بہت نقصان ہوا جن اضلاع میں سیلاب آیا وہاں اسٹوریج، موویشی اور انفرا اسٹرکچر برباد ہو گئی
اس سوال کے جواب میں محمود نواز شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں رورل انڈسٹریلائیزیشن پر زور دینا ہوگا تا کہ اپنی فصلوں کا درست استعمال ہو سکے اور اسٹوریج بنانے ہوں گے
ان کا مزید کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں انرجی کی صورتحال نقصان دے رہی ہے دیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ بجلی 12 گھنٹے ہے ایسے بھی علاقے ہیں جہاں کئی کئی دن بجلی غائب رہتی ہے اور اس طرف کسی کا دھیان نہیں ہے، زرعی آلات بنانے والے، ٹیوب ویل بنانے والے سب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے ہیں
جس کا براہ راست یا بالواسطہ اثر دیہی معیشت پر پڑ رہا ہے اگر آپ دیہی زراعت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو بجلی فراہم کی جائے، انفراسٹیکچر بنایا جائے، دیہی علاقوں میں زرعی کریڈٹ دیا جائے جنسوں کے ریٹ فراہم کیے جائیں ، بیج فراہم کئے جائیں کیوں کہ زراعت سندھ اور پاکستان کے لیے بہت بڑا موقع ہے۔
خیرپور میرس سے تعلق رکھنے والی خاتون کسان زرینہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر کسانوں نے اپنی فصلیں اور اپنی آمدنی کھو دی ہے۔
ان میں سے بہت سے لوگ مزید قرض میں ڈوب گئے ہیں کیونکہ وہ اکثر سیزن کے آغاز میں زرعی سامان جیسے بیج، کھاد اور زمین کی تیاری کے لیے کریڈٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ بہت سے چھوٹے کسان گھریلو غذائی تحفظ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی فصل کی پیداوار پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ فصلوں کی بڑے پیمانے پر تباہی اور مویشیوں کا نقصان سندھ میں غذائی تحفظ پر مجموعی دباؤ ڈال رہا ہے۔
پاکستان میں زرعی درآمدات سالانہ 8 بلین ڈالر سے زیادہ ہیں۔صرف 28% قابل کاشت زمین سیراب ہونے کے ساتھ، زرعی شعبے میں غیر استعمال شدہ زمین کو استعمال میں لانے کی صلاحیت موجود ہے۔
پاکستان میں بڑے پیمانے پر بنجر یا نیم بنجر زمینیں ہیں، جن میں 20 ملین ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین ہے جسے کاشت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صرف پنجاب میں 3.8 ملین ایکڑ بنجر/غیر زرعی زمین ہے۔
گندم کی پیداوار میں 4.5 من فی ایکڑ اضافہ کرکے، پاکستان 40 لاکھ ٹن اضافی گندم حاصل کرسکتا ہے، جس کی مالیت تقریباً دو ارب ڈالر ہے۔
وسائل کا صحیح استعمال پاکستان کو خود کفالت حاصل کرنے اور زرعی اجناس کا برآمد کنندہ بننے کے قابل بنا سکتا ہے۔
1960 کی دہائی میں ایوب حکومت کے دور میں پاکستان میں خاطر خواہ زرعی ترقی ہوئی تھی ۔
زمینی اصلاحات کی گئی تھیں جس میں انفرادی ملکیت پر زیادہ سے زیادہ کی حد لگا ئی گئی. ملک میں پہلی زرعی یونیورسٹی قائم کی گئی، ٹریکٹروں کی درآمد کے لیے لبرل سبسڈی اور سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں پانی کی کمی پر قابو پانے کے لیے ٹیوب ویل لگائے گئے۔
1960 کی دہائی کے دوران اوسط سالانہ شرح نمو 5.07فیصد تھی
پاکستان کے زرعی شعبے کی موجودہ صورتحال کی وجہ پالیسی سازوں کی بے حسی، اداروں کے فریم ورک کی کمی، غیر متوقع سرکاری پالیسیاں، ڈونر ایجنسیوں کا غیر ضروری دباؤ، اور نجکاری کے اثرات ہیں۔
پاکستان کے پاس صوبہ پنجاب میں تھل اور چولستان کے علاقوں میں 1.0 ملین ایکڑ، صوبہ سندھ میں تھر سمیت دیگر ریگستانی علاقوں میں 0.3 ملین ایکڑ، بلوچستان – کیچ، خضدار اور جعفر آباد / سبی کے میدان میں 0.7 ملین ایکڑ اراضی وکو نئی تیکنالوجی کی بدولت قابل کاشت کیا جاسکتا ہے
جبکہ اقتصادی سروے رپورٹ 2022-23 کے مطابق پاکستان میں مویشیوں کی تعداد 5 کروڑ 34 لاکھ سے بڑھ کر 5 کروڑ 55 لاکھ ہو گئی ہے۔
پاکستان میں مویشی، بھینس، بھیڑ، بکری اور اونٹ کے 220 ملین (مویشی، بھینس، بھیڑ، بکری اور اونٹ) کی وافر مقدار موجود ہے، پاکستان کے پاس 5.5 ملین ٹن گوشت کی پیداوار کی صلاحیت ہے جس میں پولٹری بھی شامل ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے پاس 55 ملین ٹن کی کھپت کے ساتھ 68 ملین ٹن کی ممکنہ پیداوار کی صلاحیت ہے، وطن عزیز 13 ملین ٹن دودھ ویلیو ایڈیشن کے تحت زرمبادلہ میں اضافے میں مدد دے سکتا ہے
موسمی تبدیلیوں کے خدشے کی وجہ سے خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ میں بہتری لانا بے حد ضروری ہے، جس کی بدولت ہم پاکستان کو سرسبز اور ذرخیز ریاست بنا سکتے ہیں
راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے
راوا – پاکستانی خبریں | بین الاقوامی
روایت ہے پاکستان رواداری ہے پاکستان
راوا ہے ملک کی پہچان
باخبر باشعور پاکستان کے لیے راوا کے ساتھ رہیے
Error: Could not authenticate you.
Your email address will not be published. Required fields are marked *