asiacup 720x454

ایشیا کپ کی کیا ضرورت تھی؟

20 views

ممکن ہے کہ اس بات پر انگور کھٹے والی مثال دے کر ہنس دیا جائے کہ پاکستان ایشیا کپ کے فائنل میں بھی نہیں پہنچ پایا اور بھارت کے خلاف سپر فور کے میچ میں  ریکارڈمارجن کی شکست سے دوچار ہوا تو اب ایشیا کپ کی ضرورت پر سوالیہ نشان بنایا جارہا ہے۔

عدنان حسن سید

تاہم اپنی پچھلی نشست سے جب پاکستان کا ایک قدم فائنل میں تھا،   ہم یہی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس ٹورنامنٹ کا انعقاد یا اس کی میزبانی پاکستان کے لئے اتنی ضروری کیوں تھی؟  ایشین کرکٹ کونسل کے صدر  اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری جے شاہ کی ہٹ دھرمیوں اور من مانیوں کا تفصیلی ذکر تو ہم کر ہی چکے ہیں۔ان کے ہوتے ہوئے پاکستان کا اس ایونٹ کی میزبانی پر اڑے رہنا ہمیں کیا دے گیا، اس کا آج جائزہ لیتے ہیں

جے شاہ کو ایک کھلونا کپ دلادے کوئی

جب بھارت نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا تھا تو بہتر ڈپلومیسی سے اس کے دو حل نکالے جاسکتےتھے۔موجودہ سیاسی تناظر میں بھارت کا پاکستان آنا تو قرین از قیاس ہی رہے گا۔

اس کے جواب میں اگر ورلڈ کپ میں بھارت نہ جانے کی دھمکی دے  ہی دی گئی تھی تو اسے بھارت کے آنے سے مشروط کیا جانا چائے تھا نہ کہ اس ہائبرڈ ماڈل سے جس میں  سارے اہم میچز سری لنکا میں ہوگئے اور پاکستان اپنے کراؤڈکے سامنے نیپال کے یک طرفہ کارنامے کے علاوہ صرف ایک میچ کھیل سکا ۔

اس سے کہیں بہتر تھا کہ پاکستان ایک بار پھر میزبانی سے دستربردار ہوجاتا یا ٹورنامنٹ آگے بڑھوانے کی کوشش کرتا۔ اس جھوٹی انا کا کیافائدہ ہوا جب آپ میزبانی کا لطف بھی نہ اٹھا سکے، بھارت کو بھی نہ بلواسکے اور بری طرح ہار بھی گئے۔

اب بکھرنے والے شیرازے کو سمیٹ کر آپ بھارت بھی چلے جائیں گے عالمی کپ میں شرکت کرنے۔ گویا بھارتی کرکٹ بورڈ نے آپ کو میدان کے اندر اور باہر ہر محاذ پر شکست دے دی۔اس سے تو بہتر تھا کہ بھارت کے بغیر ٹورنامنٹ کروانے یا بصورت دیگر شرکت سے معذرت کرنے کی کوشش کرلی جاتی۔

اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایشیا کپ کی میزبانی پراڑے رہنے کا مقصد گیٹ منی سے بیش بہا فائدہ اٹھا نا ہی تھا تو ہمیں یقین ہے کہ یہاں بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہوگا۔ٹورنامنٹ کے شیڈول سے بری طرح کھیلنے کے بعد  جے شاہ نے اسے بارش کے حوالے کردیا تھا ۔

اس لئے سری لنکا کے تماشائی ان تمام میچز سے دور ہی رہے  جس میں سری لنکا خود شامل نہیں تھا۔ادھر پاکستان میں ویسے ہی پچاس اوور کی فارمیٹ میں پاکستان کے میچز کوئی دیکھنے نہیں آتا تو دوسری ٹیموں کو دیکھنے وہ کیا آتے۔اگر اس کے باوجود بھی پی سی بی کو ایشیا کپ کی میزبانی سے کوئی  مالی فائدہ ہوا ہے تو اسے ان کا کارنامہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان کا مقصد اس ٹورنامنٹ کے ذریعے ورلڈ کپ کی تیاری رہا ہو۔تو وہ اس کو منسوخ کرواکے زیادہ بہتر طور پرحاصل ہوسکتا تھا۔افغانستان سے سیریز وہ کھیل چکے تھے۔بنگلہ دیش اورسری لنکا کے ساتھ سہ فریقی سیریز یا الگ سیریز بھی کھیلی جاسکتی تھی

۔اگر کوئی راضی نہیں ہوتاتوہالینڈ کے ساتھ کوئی سیریز ارینج کرلیتے۔ظاہر ہے کہ کوالیفائر ٹیم ہونے کے ناتے ہالینڈ کوبھی تیاری کا موقع نہیں مل رہا۔ان کے خلاف کھیل کے شاید پاکستانی ٹیم کا اعتماد کچھ قائم رہ جاتا جو اب پوری طرح چکنا چور ہوچکا ہے۔

تو گویا انا کا قائم رہنا ہو ، مالی فائدے کا لالچ یا ورلڈ کپ کی تیاری،  پاکستان کو اس ایشیا کپ کے انعقاد سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ الٹا نقصان یہ ہوا کہ عالمی نمبر ایک ٹیم کی حیثیت سے جو اعتماد اور رتبہ اسے حاصل تھا وہ بری طرح ڈانوا ڈول ہوگیا۔

مسلسل سری لنکا اور پاکستان کے درمیان سفر کرنے سے پاکستانی کرکٹرز نہ صرف تھکے بلکہ بارش کی مداخلتوں کے باعث فرسٹریشن کا شکار بھی ہوئے۔یہ بہر حال ان کی ناکامی کاجواز تو نہیں سمجھا جاسکتا لیکن ان عوامل میں سے ضرور ہے جن کا پہلے خیال رکھا جاسکتا تھا۔

تادم تحریر ورلڈ کپ کے لئے پاکستان کے حتمی اسکواڈ کا اعلان ہونا باقی ہے ،  اگلی نشست میں اس اسکواڈ اور پاکستان  کے چانسزپر بات کریں گے۔فی الوقت تو اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ جن جھگڑوں میں کامیابی کی توقع نہ ہو ، ان سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

دوسری صورت بغاوت اور کھلا چیلنج ہے جس کے بعد پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔بھارت کی کرکٹ ڈپلومیسی کافی الحال ان میں سے کسی ایک طریقے کے مکمل استعمال سےہی سامنا کیا جاسکتا ہے،   لیکن تھوڑا تھوڑا دونوں استعمال کرکے نہیں۔یہ درمیان کی اپروچ تباہی کا راستہ ہے۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *