world cup squad 2023 pakistan web post 808x454

پاکستان کے ورلڈ کپ اسکواڈ پر جشن منایا گیا

13 views

پاکستان کے چیف سلیٹر انضمام الحق نے جب عالمی کپ 2023کے لئے پاکستان کے پندرہ رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا تو اس اعلان کا والہانہ خیر مقدم کیا گیا۔ ان ناموں کے سنتے ہی شائقین کرکٹ نے باقاعدہ جشن منایا، بغلیں بجائیں اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ لیکن یہ سب پاکستان میں نہیں بلکہ عالمی کپ میں شریک باقی نو ممالک میں ہوا۔

عدنان حسن سید

بلاوجہ کے تعطل ،    آپس میں ہٹ دھرمی اور انا پرستی کے بعد جس اسکواڈ کو پریس کانفرنس میں پیش کیا گیا،  اس کے لئے قطعاً اتنی دیر کی ضرورت نہیں تھی جتنی کی گئی۔ شاید دیر صرف بورڈ کے عہدیداران کے ایک دوسرے کو منانے کے سلسلے میں ہوئی اور وہ کام بھی پوری طرح نہ ہوسکا کیونکہ پی سی بی ٹینیکل کمیٹی کے رکن محمد حفیظ نے اسکواڈ کے اعلان سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا۔

پندرہ ناموں اور  تین ٹریولنگ ریزروزکے نام سامنے آتے ہی پتہ چل گیا کہ بورڈ نے ایک بار پھر کپتان بابر اعظم کے ہاتھوں بلیک میل ہوکے پاکستانی قومی ٹیم نہیں بلکہ بابر الیون کا انتخاب کیا ہے جسےدیگراحباب یاری دوستی الیون بھی کہتے ہیں۔کسی بھی تبصرے سے قبل ان ناموں پر نظر ڈال لیتے ہیں۔

بابراعظم  [کپتان] ،  شاداب خان [نائب کپتان]،  محمد رضوان،  شاہین شاہ آفریدی، امام الحق،  فخر زمان، افتخار احمد،  حسن علی، محمد نواز، عبداللہ شفیق،  حارث رؤف،   سلمان علی آغا، سعود شکیل، محمد وسیم جونئیر، اسامہ میر ۔
ٹریولنگ ریزروز: زمان خان، محمد حارث، ابرار احمد

چلیں تبصرہ کپتان سے پہ شروع کرتے ہیں جن کی نمبر ون بیٹنگ رینکنگ اب قوم کے لئے اعزاز کے بجائے عذاب بن گئی ہے۔بابر اعظم ایک بہترین کھلاڑی لیکن بدترین کپتان ہیں ، یہ بات اب آہستہ آہستہ زبان زد عام ہوگئی  ہے اور نتائج سے بھی ثابت ہے

۔کسی بھی سیریز کے لئے کھلاڑیوں کے سلیکشن میں من مانی اور پھر پلئینگ الیون کا غیر موثر استعمال، ناقص حکمت عملی اورغیر موثر فیلڈ سیٹنگ ایسی چیزیں ہیں جن ہم بول بول کے اورلکھ لکھ کے تھک چکے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ بابر کی نمبر ون رینکنگ کو ان کی کپتانی کے لئے بھی ڈھال بنا کے پیش کردیا جاتا ہے۔اوپر سے سلیکشن میں ان  کی ہٹ دھرمی  بھی اب بری طرح ایکسپوز ہوچکی ہے جس کی سب سے بڑی مثال ان کے نائب کپتان شاداب خان ہیں۔

شاداب ایشیا کپ میں ایک غیر موثر اسپنر کے طور پر سب کی تنقید کا نشانہ بنےتاہم بابر نے کہا کہ وہ اچھی بولنگ کررہے ہیں لیکن وکٹیں نہیں لے پارہے۔فل ٹاس پہ فل ٹاس پھینک کر بھارت اور سری لنکا کے بیٹرز سے بری طرح مار کھانے کو بابر اچھی بولنگ شاید اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ان کو دوستی کا بھرم رکھنا ہے۔

یا پھر شاداب کی بابر سے زیادہ بڑی کوئی پرچی ہے جس پر وہ  ون ڈے اسکواڈ سے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔اگر اسپن ٹریکس پر شاداب اورنواز ہمارے مین اسپنرز ہیں تو  پاکستان کے لئےورلڈ کپ کا خدا حافظ ہے، ان کی جگہ پاکستان کپ کے کامیاب ترین اسپنر اسامہ میر کو کھلانا مشکل ہے لیکن ان کے ساتھ ضرور کھلا دیا جائے گا۔

ایسے میں مسٹری اسپنر  ابرار احمدکا ریزروز سے باہر آنا بھی قرین از قیاس ہے۔اسی طرح آ ؤٹ آف فارم اوپنرفخر زمان بھی بڑَ ےمیچ کے کھلاڑی ضرور ہیں لیکن فارم شاید دوران عالمی کپ ہی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

ان کے متبادل کے طور پر عبداللہ شفیق کو پچاس اوور کے فارمیٹ میں صرف ناکام ہونے کا تجربہ ہے لیکن ایشیا کپ میں بنائی گئی ایک نصف سنچری ان کو کم از کم اسکواڈ میں کئی سال رکھنے کے لئے کافی ہے۔

فارم یا فٹنس کا کچھ پتہ تو فاسٹ بولر یا فاسٹ نما بولر حسن علی کا بھی نہیں جو کئی ماہ کی غیر حاضری بوجہ انجری کے بعد براہ راست عالمی کپ کے اسکواڈ میں شامل کرلیے گئے۔

ممکن ہے کہ ان کے ڈانس کی ایک آدھ ٹک ٹاک ویڈیو سے ان کی فٹنس ثابت  ہوجائے لیکن کارکردگی انہوں نے 2017کی چیمپئنز ٹرافی کے بعد سے نہیں دکھائی ہے۔

ان کی شہرت جتوانے والے کے بجائے ورلڈ کپ ہروانے والے کی حیثیت سے زیادہ ہے۔ایشیا کپ میں سری لنکا کے خلاف تقریباً میچ جتوانے والے زمان خان ریزرو میں آگئے ہیں اور کیوں نہ آئیں،  حسن علی  بابر کے یار غار جو ہیں۔

فٹنس پر سوالیہ نشان تو ریگولر فاسٹ بولرز شاہین شاہ آفرید ی اور حارث رؤف کے بھی بنا ہوا ہے۔ایسے میں محمد وسیم  جونئیراورحسن علی پرپریشر کافی نظر آتا ہے۔

سعود شکیل کو اگر کھلا لیا جائے تو اسپنرز کے خلاف موثر ثابت ہوسکتے ہیں اور سلمان علی آغا بھی ان وکٹوں پر اچھا کھیلیں گے۔آسٹریلیا کی تیز وکٹوں کے اسپیشلسٹ افتخار احمد کا اسپن ٹریکس پر بہر حال امتحان ہوگا

۔ادھر امام الحق متواتر اسکور کررہے ہیں لیکن اہم میچز میں ان فٹ ہوجانا سمجھ سے باہر ہے۔ ہیں وہ بھی کپتان کے گہرے دوست تو ان کو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا۔بظاہر محمد رضوان کے سلیکشن پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ان کی خلافت بطور ریزرو کیپر محمد حارث کو ساتھ لیے پھرنے میں نظر آتی ہے۔پاکستان کپ کے  دوسرے نمبر کے کامیاب ترین بیٹسمین اور وکٹ کیپر حسیب اللہ سے سلیکٹرز کو کیا پرخاش ہے،  اس کا جواب شاید رضوان ہی دے سکیں۔

وقت کم ہے اور بات لمبی،  اس لئے عالمی کپ میں پاکستان کے چانسز اور بورڈ میں ہونے والی مستقل ڈرامے بازیوں پر بات اگلی نشست میں کریں گے۔

آج یہ کہہ کے گفتگو سمیٹتے ہیں کہ کمزوریوں کے ہوتے انسان معجزات کی دعا کرتا ہے لیکن خود ساختہ کمزوریوں پر یہ دعا کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔

مصنف کے بارے میں

راوا ڈیسک

راوا آن لائن نیوز پورٹل ہے جو تازہ ترین خبروں، تبصروں، تجزیوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں روزانہ ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your email address will not be published. Required fields are marked *